پشاور: پشاور پولیس نے چینی سیاح کا موبائل فون ایک گھنٹے میں تلاش کر کے ان کے حوالے کر دیا، تاہم پذیرائی کی بجائے سوشل میڈیا پر صارفین نے محکمے کو زبردست تنقید کا نشانہ بنا لیا۔
تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز فیس بک پر ایک پوسٹ میں پشاور پولیس نے اطلاع دی کہ انھوں نے نمک منڈی میں آئے ہوئے ایک چینی سیاح سے گم ہونے والا قیمتی موبائل فون 1 گھنٹے کے اندر برآمد کر کے چینی شہری کے حوالے کر دیا۔
موبائل فون میں اہم تصاویر، ویڈیوز اور ضروری ڈیٹا موجود تھا، پولیس کی بروقت امداد اور کارروائی پر چینی ٹورسٹ لی شنگ نے پشاور پولیس کا شکریہ ادا کیا۔ پولیس اہل کاروں نے چینی شہری کو کھانا بھی کھلایا۔
پشاور پولیس نے موبائل فون ملنے کے اس واقعے کو اپنی شان دار کارکردگی کے طور پر کے پی پولیس کے آفیشل فیس بک پیج پر شیئر کیا اور ساتھ میں تصویر بھی پوسٹ کر دی، جس میں پولیس اہل کار لی شنگ کا کھویا ہوا موبائل فون واپس کر رہے ہیں۔
ایک ایسی صورت حال میں جب پشاور کا تقریباً ہر دوسرا شہری اسٹریٹ کرائم کا شکار ہو کر اپنے قیمتی موبائل فون اور نقدی سے محروم ہو چکا ہے، پولیس کی اس ’کارکردگی‘ نے صارفین کے دلوں کو آگ لگا دی، بے شمار افراد نے اس پوسٹ پر کمنٹس کر کے چھینے گئے موبائل فونز کی فریاد کے ساتھ ساتھ جلے دل سے تبصرے بھی کیے۔
ایک سوشل میڈیا صارف ذاکر نے شدید طنز کرتے ہوئے کہا کہ ’پشاور پولیس کی اتنی ایمان داری کے باوجود چینی باشندہ لی شنگ اسلام قبول کیوں نہیں کر رہا؟‘
سوشل میڈیا صارف آصف خان ترین نے پوسٹ پر لکھا کہ کے پی پولیس کو نوبل انعام ملنا چاہیے، رضوان محسود نے لکھا ’پاکستانی کا موبائل گم ہو جائے تو آپ لوگ رپورٹ تک درج نہیں کرتے۔‘ اسی طرح ایک صارف عابد جان نے لکھا کہ مطلب اگر پولیس چاہے تو ایک گھنٹے میں سب کچھ معلوم کر سکتے ہیں لیکن ہمارے والے کا کئی سالوں تک پتا نہیں چلتا، یہ سروس ہمیں بھی چاہیے۔
انصار اللہ نامی صارف نے بھی اپنی خواہش کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ کاش عام پاکستانی کے لیے بھی پولیس اس طرح کوشش کرتی، ایک صارف عبدالوہاب نے لکھا کہ دیکھ لی چینیوں کی طاقت؟ عبدالباسط نامی صارف نے آئی جی کے پی پولیس سے شکوہ کیا کہ آئی جی صاحب دو موبائل ہم سے بھی چھینے گئے تھے، کیا ہمیں بھی برطانوی یا چینی شہری بننا پڑے گا۔
عزیز بونیری جو کہ مقامی صحافی ہیں، کو بھی اپنے ساتھ پیش آنے والا واقعہ یاد آ گیا اور لکھا کہ پشاور پولیس کو سرغنہ معلوم ہوتا ہے مجھ سے ڈیڑھ سال پہلے قصہ خوانی میں جیب سے چوری کیے گئے موبائل کا ابھی تک کچھ پتا نہیں چلا، تھانہ قبول شاہ والوں نے رپورٹ بھی درج کی، لیکن طفل تسلی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوا۔
پشاور پولیس کی اس پوسٹ پر ہونے والے تقریباً 99 فی صد صارفین کی رائے پولیس کی کارکردگی کو سراہنے کی بجائے تنقید بھری ہے، کیوں کہ ایک عام شہری کی پولیس تھانے میں داد رسی تو دور کی بات، اس کی فریاد بھی مشکل سے سنی جاتی ہے۔
تھانے میں موجود پولیس اہل کار (محرر) کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ اسٹریٹ کرائمز کے شکار شہریوں کو ’’اللہ کی مرضی تھی اور شکر کرو کہ جان بچی‘‘ کا کہہ کر واپس گھر روانہ کیا جائے یا پھر کورٹ کچہری کے چکروں اور چوروں سے دشمنی مول لینے کا خطرہ بتا کر گھر بھیج دیا جائے، جب کہ ’ڈھیٹ‘ افراد کو صرف سادہ کاغذ پر روزنامچہ رپورٹ لکھ کر تھما دی جاتی ہے۔