جمعرات, فروری 13, 2025
اشتہار

پشاور ہائیکورٹ میں پی ٹی آئی انتخابی نشان کیس کی سماعت ، آج فیصلہ متوقع

اشتہار

حیرت انگیز

پشاور : پشاور ہائیکورٹ میں پی ٹی آئی انتخابی نشان کیس کی سماعت جاری ہے، جسٹس اعجازانور نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن شیڈول کے بعد کیسے انتخابی نشان کا فیصلہ کرسکتے ہیں؟

تفصیلات کے مطابق پشاورہائیکورٹ میں پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن اور انتخابی نشان کیس پر سماعت ہوئی، جسٹس اعجاز انور ، جسٹس سید ارشد علی پر مشتمل 2 رکنی بنچ نے سماعت کی۔

پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن پر اعتراض کرنے والے فریقین کے وکیل قاضی جواد ایڈووکیٹ نے دلائل میں کہا کہ میرے موکل پی ٹی آئی کے سابق ضلعی جنرل سیکریٹری رہے ہیں ، میرے موکل کو میڈیا سے پتہ چلا کہ انٹرا پارٹی انتخابات ہورہے ہیں، میرےموکل الیکشن میں حصہ لینا چاہتے تھے لیکن ان کو موقع نہیں دیا گیا۔

جسٹس اعجاز انور کا کہنا تھا کہ آپ نے یہ نہیں کہا کہ انٹرا پارٹی الیکشن دوبارہ کرائے جائیں ، انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قراردیےگئے،آپ کو چاہیےتھا دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کرتے، آپ اگر پارٹی سے تھے تو پارٹی نشان واپس لینے پر آپ کو اعتراض کرنا چاہیے تھا، آپ نےپارٹی نشان واپس لیےجانےپراعتراض نہیں کیا۔

جس پر وکیل نے کہا کہ ہمیں تو انتخابات میں موقع نہیں دیا گیا جس کے خلاف الیکشن کمیشن گئے، انٹرا پارٹی انتخابات پورے ملک کے لیے ہیں تو
جسٹس ارشد علی نے استفسار کیا ہائیکورٹ صرف صوبے کو دیکھ سکتی ہے، کیا ہر صوبے میں الگ الگ کیس کرنا چاہیے تھا ان کو؟ انٹرا پارٹی الیکشن پشاور میں ہوا تو یہاں پر کیسے کیس نہیں کرسکتے۔

جسٹس اعجاز انور نے بھی استفسار کیا انٹراپارٹی الیکشن میں تمام ممبران الیکٹ ہوئےیاصرف صوبےکی حد تک؟ وکیل نے بتایا کہ انٹرپارٹی الیکشن میں پورے ملک کے نمائندے منتخب ہوئے۔

جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس میں کہا کہ یہاں پر الیکشن ہوا اور الیکشن کمیشن نے اس کو کالعدم قرار دیا ،انٹرا پارٹی الیکشن پشاور میں ہوا ہے تو اس کو یہاں کیوں چیلنج نہیں کیا جاسکتا، جس پر وکیل کا کہنا تھا کہ یہ تو لاہور ہائیکورٹ بھی گئےتھےوہاں پر ان کی درخواست خارج ہوئی۔

جسٹس اعجاز انورنے مزید کہا کہ لاہورہائیکورٹ نےآرڈرمیں لکھا کیس پشاورہائیکورٹ ،سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے،لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ کو فیصلہ کرنے دیں۔

دوران سماعت اکبرایس بابر نے اپنے بیان میں کہا کہ بہترہوتاپشاور ہائیکورٹ ہمیں بھی سنتی، ہم پشاورہائیکورٹ کو ثبوت دیتے، فیصلہ صادر کرنےسے پہلے ہمیں بھی سناجاتا، پی ٹی آئی نے انٹراپارٹی الیکشن کے نام پرفراڈ کیا،انٹراپارٹی الیکشن کا مقام تک خفیہ رکھا گیا۔

اکبر ایس بابر کا کہنا تھا کہ انٹراپارٹی الیکشن کےنام پر ہونیوالےفراڈکےتمام ثبوت ہیں، ہمیں ہائیکورٹ نے نوٹس نہیں دیے، فارن فنڈنگ کیس میں 200 سے زائد پیشیاں ہوئیں، تحریک انصاف نے متعدد رٹ پٹیشن دائر کیں، پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کرنا پی ٹی آئی کا حق ہے، اس سے پہلے یہ روایت نہیں تھی۔

سابق رہنما نے کہا کہ الیکشن کمیشن کےبازو مضبوط کرنے کےبجائےباندھےجا رہے ہیں، پڑوسی ملک میں الیکشن کمیشن کےمعاملات میں مداخلت نہیں ہوتی۔

جج نے ریمارکس دیئے الیکشن شیڈول جاری ہو جائےتوکیسے آپ کسی کےانتخابی نشان کا فیصلہ کر سکتے ہیں؟ کیا کوئی پارٹی بغیر انتخابی نشان کے انتخابات میں حصہ لے سکتی ہے؟ وکیل شکایت کنندہ نے بتایا کہ 1985 میں بھی غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات ہوئے تو جسٹس اعجاز انور کا کہنا تھا کہ وہ تو مارشل لاء کا دور تھا۔

جسٹس سید ارشد علی نے استفسار کیا کہ اگر ایک پارٹی کو نشان مل جائے تو آپ کو کیا نقصان ہوگا؟ شکایت کنندہ کے وکیل نے دلائل دیے کہ جو پارٹی قانون کےمطابق پارٹی الیکشن نہیں کراسکتی توکیوں سپورٹ کریں، انتخابی نشان بدلتے رہتے ہیں ہر الیکشن کیلئے نیا نشان بھی دیا جاسکتا ہے۔

جسٹس اعجاز انوار نے کہا کہ آپ بھی یہ کہہ رہے ہیں انٹراپارٹی الیکشن ٹھیک نہیں ، نشان واپس لینا ٹھیک ہے، سوال کیا کہ کیا آپکی درخواست پرالیکشن کمیشن نےانٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دیا ۔ کیا سپریم کورٹ میں درخواست واپس لی گئی ہے، جس پر وکلا نے عدالت کو بتایا کہ جی سپریم کورٹ سے درخواست واپس لے لی گئی ہے۔

جسٹس سید ارشد علی نے سوال کیا کہ الیکشن کاعمل ٹھیک نہیں تھا تو شوکاز جاری کیا گیا وہ کہاں ہے؟ وکیل شکایت کنندہ نے کہا کہ 7 دسمبر کو ان کو نوٹس جاری کیا گیاتھا، جس پر جسٹس اعجاز انور استفسار کیا نوٹس میں کہاں لکھاہےالیکشن ایکٹ 208 ، 209 کی خلاف ورزی ہوئی، شوکاز تو 2021 میں دیا گیا،اس کے بعد تو کوئی جاری نہیں کیا گیا۔

شکایت کنندہ کی طرف سے طارق آفریدی ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ دائرہ اختیارپربات کروں گاکہ درخواست عدالت سن سکتی ہے یا نہیں، جس پر عدالت نے کہا کہ آپ سے پہلے وکیل صاحب نے بھی دائرہ اختیار پر ایک گھنٹہ دلائل دیے،انہوں نے جو نکات اٹھائےاس کےعلاوہ کوئی ہےتوبتائیں۔

طارق آفریدی ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی لیول پلیئنگ فیلڈکی بات کررہی ہےتواپنےکارکنوں کوبھی یہ فیلڈدے، پارٹی کے کارکنوں کو پتہ نہیں تھا کہ الیکشن کہاں پرہیں، پھرایک بلبلا اٹھااورانٹراپارٹی الیکشن ہوئے، جس پر جسٹس اعجازانور نے ریمارکس دیئے پھروہ بلبلا بھی پھٹ گیا، یہاں پر کبھی کون تو کبھی کون لاڈلا بن جاتا ہے، آپ سیاسی باتیں نہ کریں قانونی نقطے پر آجائے۔

وکیل شکایت کنندہ نے کہا کہ یہ خود لیول پلیئنگ فیلڈ مانگ رہے ہیں، ہم نےبھی لیول پلیئنگ فیلڈ مانگی تھی تو جسٹس اعجاز انورکا کہنا تھا کہ آپ بھی یہ کہہ رہے ہیں انٹراپارٹی الیکشن ٹھیک نہیں ،نشان واپس لینا ٹھیک ہے۔

جس پر وکیل نے بتایا کہ جوپارٹی قانون کےمطابق پارٹی الیکشن نہیں کراسکتی توکیوں سپورٹ کریں، انتخابی نشان بدلتے رہتے ہیں ہر الیکشن کیلئے نیا نشان بھی دیا جاسکتا ہے، شکایت کنندہ پارٹی ممبر ہے ان کو پارٹی سے نکالا گیا، جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیئے ہم اس پر نہیں جاتے کہ یہ پارٹی ممبر تھےیانہیں، آپ کی درخواست پرالیکشن کمیشن نےانٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دیا۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں