تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

ممتاز انقلابی شاعر عارف شفیق انتقال کرگئے

کراچی: اردو ادب کی دنیا کے انقلابی اور رومانوی شاعر عارف شفیق طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے۔

تفصیلات کے مطابق عارف شفیق گزشتہ کئی عرصے سے سانس اور فالج کی بیماری میں مبتلا تھے، اُن کا انتقال آج چودہ دسمبر 2019 کو کراچی میں ہی ہوا، اُن کے سوگواران میں بیوہ، دو بیٹوں اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: معروف شاعر اور ماہر لسانیات لیاقت علی عاصم انتقال کرگئے

عارف شفیق کی زندگی میں اُن کے 8 شعری مجموعے شائع ہوئے جنہوں نے سیاسی ، ادبی اور سماجی حلقوں میں خوب پذیرائی حاصل کی۔

اہل خانہ کے مطابق عارف شفیق کی نماز جنازہ بعد نمازِ عصر الفلاح مسجد فیڈرل کیپیٹل (ایف سی) ایریا نزد لیاقت آباد 10 نمبر ادا کی گئی۔

سفرِ زندگی

اُن کا پورا عارف شفیق جبکہ تخلص عارف تھا، آپ کی پیدائش 31 اکتوبر 1965 کو کراچی کے علاقے لیاقت آباد (لالوکھیت) میں ہوئی، ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ شعبۂ صحافت سے وابستہ ہوئے اور کئی اخبارات کے چیف ایڈیٹر بھی رہے۔

عارف شفیق نے شاعری کے علاوہ افسانہ نگاری کے میدان میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔

تصانیف

’’اندھی سوچیں گونگے لفظ‘‘، ’’سیپ کے دیپ‘‘، ’’جب زمین پر کوئی دیوار نہ تھی‘‘، ’’احتجاج‘‘، ’’سرپھری ہوا‘‘، ’’میں ہواؤں کا رخ بدل دوں گا‘‘، ’’میرا شہر جل رہا ہے‘‘، ’’یقین‘‘، ’’میری دھرتی میرے لوگ‘‘

منتخب اشعار

پھر مرے شہر پہ قبضہ جمانے آئے تھے

تجھے جو قائد ملت ہرانے آئے تھے

انھی نے شہر کا امن و اماں بھی لوٹ لیا

جو میرے شہر میں دولت کمانے آئے تھے

یہ کہہ رہے ہیں کہ ہتھیار ان کا زیور ہے

انھیں خبر نہیں کس کو ڈرانے آئے تھے

نہتے لوگوں پہ جو گولیاں چلاتے ہیں

یہاں وہ گاؤں سے ویگن چلانے آئے تھے

یہ اپنے اپنے علاقوں سے بھاگ کر عارف

کراچی شہر میں کیا گل کھلانے آئے تھے

***

آنکھوں میں جاگ اٹھے ہیں تنہا شجر کے دکھ

گلدان میں جو پھول سجے دیکھتا ہوں میں

***

مرے دکھوں کو یہ سمجھے نہ شاعری کو مری

یہاں کے لوگوں کا احساس بھی تجارتی ہے

***

وہی ہیں لفظ پرانے جو لکھ رہے ہیں سب

اکثر سب کو رستہ دینے والے لوگ

***

میری طرح سے خود پیچھے رہ جاتے ہیں

زندہ رہنے کی اک اندھی خواہش میں

اپنی قبروں پر کتبے لکھواتے ہیں

***

جب کوئی اہم فیصلہ کرنا

اپنے بچوں سے مشورہ کرنا

میں نے سیکھا ہے اپنے بچوں سے

سچ کا اظہار برملا کرنا

***

غریب شہر تو فاقے سے مر گیا عارفؔ

امیر شہر نے ہیرے سے خودکشی کر لی

Comments

- Advertisement -
عمیر دبیر
عمیر دبیر
محمد عمیر دبیر اے آر وائی نیوز میں بحیثیت سب ایڈیٹر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں