اتوار, ستمبر 8, 2024
اشتہار

گلزار دہلوی:‌ اردو زبان کے شیدائی اور دہلوی تہذیب کے شاعر کا تذکرہ

اشتہار

حیرت انگیز

گلزار دہلوی ہندوستان میں اردو زبان و تہذیب کے نمائندہ شاعر اور ان کی شخصیت دہلوی تہذیب کا بے مثال نمونہ تھی۔ گلزار دہلوی ہر مکتبِ‌ فکر اور طبقہ ہائے عوام میں اپنی فراخ دلی اور بے مثال رواداری کا مظاہرہ کرنے کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے۔ ان کا نام بھی گنگا جمنی تہذیب کی عکاسی کرتا ہے کہ خود کو ڈاکٹر پنڈت آنند موہن زتشی گلزار دہلوی نظامی لکھا کرتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ انھیں ہندوستان میں مجاہدِ اردو، شاعرِ قوم، اور بلبلِ دلّی کے خطاب و القاب دیے گئے۔

اس ہمہ صفت اور باکمال شاعر نے ہندوستان میں اردو کے سچّے عاشق اور اس زبان کے زبردست حامی کے طور پر اردو کا مقدمہ لڑتے ہوئے عمر گزار دی۔ گلزار دہلوی نے بھارت میں اردو کو اس کا مقام اور جائز حق دلانے کے لیے پُرخلوص کوششیں کیں۔

پنڈت آنند موہن زتشی کا قلمی نام گلزار دہلوی تھا۔ وہ نسلاً کشمیری تھے۔ وہ 7 جولائی سنہ 1926ء کو پیدا ہوئے اور 1942ء میں ان کے شعر و سخن کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ تا دم مرگ جاری رہا۔ گلزار دہلوی کو دنیا بھر میں مشاعروں میں مدعو کیا جاتا تھا۔ وہ بھارت ہی نہیں پاکستان میں بھی ادبی حلقوں میں مشہور تھے۔ گلزار دہلوی کو متعدد جامعات نے تمغہ جات اور ادبی اعزازات سے نوازا اور ان میں پاکستان کی جانب سے نشانِ امتیاز بھی شامل ہے۔ جب کہ غالب ایوارڈ، اندرا گاندھی میموریل قومی ایوارڈ کے علاوہ بھارت میں گلزار دہلوی کو اردو زبان و ادب کی خدمت اور ثقافت کے فروغ کے لیے کوششوں پر مختلف تنظیموں کی جانب سے اعزازات دیے گئے۔

- Advertisement -

گلزار دہلوی نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ وہ نوعمری ہی میں شعر کہنے لگے تھے اور اپنا کلام اپنے والد حضرت زار دہلوی کو دکھایا کرتے تھے جو دہلی کے ایک کالج میں برس ہا برس تک اردو اور فارسی کے استاد رہے تھے۔

مشہور ہے کہ 1936ء میں جب انجمن ترقیٔ اردو ہند کے لیے کل ہند کانفرنس دہلی میں منعقد ہوئی تو اس کا افتتاح گلزار دہلوی کی نظم سے ہوا تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد بھی گلزار دہلوی کی شاعری کے معترف تھے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ گلزار دہلوی ایک شاعر اور ادب سے وابستہ ہونے کے باوجود سائنس سے بھی شغف رکھتے تھے۔ اور یہ امر اکثر قارئین کے لیے تعجب خیز ہو کہ وہ ایک سائنسی رسالے کے مدیر بھی رہے۔ انھیں "کونسل آف سائنٹفک انڈسٹریل ریسرچ سنٹر” کا ڈائریکٹر بھی مقرر کیا گیا تھا۔ اسی ادارے کے تحت گلزار دہلوی نے "سائنس کی دنیا” نامی اردو رسالہ جاری کیا۔

اردو کے قادرالکلام شاعر جوش ملیح آبادی نے گلزار دہلوی کے متعلق کہا تھا:
میاں گلزار میرے محترم بزرگ حضرت زار دہلوی کے قابلِ ناز فرزند اور نہایت ہونہار شاعر ہیں۔ ان کی جو روش سب سے زیادہ مجھ کو پسند ہے وہ ان کی اردو سے والہانہ شگفتگی اور مردانہ وار تبلیغ ہے۔ اسی طرح جگر مرادآبادی نے گلزار دہلوی کے بارے میں لکھا تھا: پنڈت آنند موہن زتشی گلزار ایک خاندانی و موروثی شاعر ہیں، اہلِ زبان ہیں، دلّی کی ٹکسالی زبان بولتے ہیں۔ انہیں ہر صنفِ سخن پر قدرت حاصل ہے۔ غزل، نظم، رباعی، قطعہ، نعت و منقبت ہر میدان میں انہوں نے دادِ سخن سمیٹی ہے۔ وہ اردو کے مجاہد ہیں، برصغیر ہند و پاک میں ہر جگہ مقبول ہیں۔ اللہ نے انہیں ایک درد مند اور انصاف پسند دل بھی عطا کیا ہے۔ میں نے انہیں ہر صحبت میں مہذب، نیک انسان، روادار اور عاشقِ رسول پایا ہے۔ اردو پر تو ان کی رباعیاں بے مثال ہیں۔ گلزار صاحب نہ صرف ایک کام یاب اور مقبول غزل گو شاعر ہیں بلکہ اعلیٰ انسانی قدروں اور اردو کی ہچکولے کھاتی نیا کے محافظ بھی ہیں۔

گلزار صاحب کے پاکستان کے دورے کے متعلق اپنے تأثرات بیان کرتے ہوئے بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق نے کہا تھا: گلزار صاحب کراچی کیا آئے گویا بہار آ گئی کہ دلّی کی اردو سراپا ہو کر ان کی صورت میں کراچی کی ادبی محفلوں میں چھا گئی۔ کراچی والے ان کی زبان دانی اور قدرتِ بیان پر حیران بھی تھے اور داد و تحسین بھی کر رہے تھے۔

گلزار دہلوی کا ایک مشہور قطعہ ہے:
دونوں کی رگ و پے میں خون اپنا ہی جاری ہے
اردو بھی ہماری ہے، ہندی بھی ہماری ہے
اردو سے مگر غفلت کس واسطے ہے ہمدم
تہذیب کی ضامن یہ خسرو کی دلاری ہے

گلزار دہلوی کے پورے وجود سے پرانی دلّی کی تہذیب مترشح ہوتی تھی۔ رہن سہن، وضع قطع اور بولی سب کچھ ’بزبانِ دلّی‘ تھا۔ ان کے آبا و اجداد میں سنسکرت، عربی، فارسی اور انگریزی کے معلّم اور مصنّف بھی گزرے تھے۔ ددھیال و ننھیال دونوں طرف شعرا ادبا تھے۔ ماموں پنڈت گردھاری لعل کول صاحب دیوان شاعر تھے۔ والد پنڈت تربھون ناتھ زتشی المتخلّص بہ زار دہلوی، داغ دہلوی کے شاگرد تھے۔ والدہ کو بھی شاعری سے شغف تھا۔ بھائی بھی شاعر تھے۔ گویا اطراف و جوانب میں سخن ور ہی سخن ور تھے۔ گلزار دہلوی نے مختلف رنگ و آہنگ کے شعرا سے اکتسابِ ہنر کر کے اپنے فن کو رنگا رنگ کیا۔ گلستاں، بوستاں، انوار سہیلی، اخلاق محسنی جیسی اہم اساسی کتابیں انھیں والدہ نے پڑھائی تھیں۔ پنڈت برج موہن دتا تریہ کیفی سے زبان و بیان کے رموز و نکات اور انقلابی و قومی نظمیں لکھنا سیکھا۔ نواب سراج الدین احمد خاں سائل سے اسلامی تصوف اور دینیات کی آگہی کے ساتھ ساتھ دلّی کے شعری تہذیب و تمدّن کا انجذاب کیا اور پھر ہر صنف میں‌ اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کیا۔

گلزار صاحب 12 جون 2020ء کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔ بھارتی حکومت نے انھیں پدم شری ایوارڈ سے بھی نوازا تھا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں