کراچی: کشمور سے تعلق رکھنے والے محنت کش کے بچے ایک عجیب و غریب بیماری کا شکار ہیں جنہیں ڈاکٹر فی الحال کوئی نام دینے سے قاصر ہیں۔
اس دور کے ہر دوسرے شخص کی طرح کشمور سے تعلق رکھنے والے محنت کش دودا خان اور اسکی بیوی سلطانہ کو میڈیا سے ہی امید ہے، وہ سمجھتے ہیں اگر ان کے بچوں کی بیماری کے حوالے سےکوئی نیوزپیکچ بنا دیا جائے تو شاید سرکار حرکت میں آجائے یا پھرمخیر حضرات میں سے کوئی ان بچوں کے علاج کی ذمہ داری اٹھالے۔
دودا خان اور سلطانہ جب اے آر وائی نیوز کے دفتر پہنچے تو اس وقت 8سالہ امتیاز اور 3 سالہ قاسم بھی ان کے ساتھ تھے ان بچوں کی حالت کافی تکلیف دہ ہے پیدائش کے ایک ماہ بعد سے ہی یہ بچے کئ بیماریوں کا شکار ہیں اور مناسب علاج نہ ہونے کی وجہ سے جسمانی معذوری کا شکار ہورہے ہیں کیونکہ ان بچوں کے ہاتھوں پیروں کے ساتھ ساتھ جسم کے دیگر حصے بھی گزرتے وقت کے ساتھ کام کرنا چھوڑ رہے ہیں۔
سلطانہ بی بی بھی اپنے بیٹوں کی اس حالت کی وجہ سے ہر وقت دکھ کی کیفیت میں رہتی ہے اس نے روتے ہوئے بتایا کہ جب وہ خاندان میں اپنے بیٹوں کے ہم عمر دوسرے بچوں کو ہنستے کھیلتے اور شرارتیں کرتے ہوئے دیکھتی ہے تو اس کے دل میں بھی حسرت جاگتی ہے کہ کب اس کے بیٹوں کی ہنسی کی آوازیں اس گھر میں گھونجیں گیں جہاں اب صرف ان بچوں کی تکلیف سے کراہنے اور رونے کی آوازیں ہیں۔
پانچ سو روپے یومیہ کمانے والے دودا خان نے بتایا کہ وہ کرائے کے مکان میں رہتا ہے اور اپنی قلیل آمدنی میں اس کے لئے گھر کی ضرورتیں اور بیمار بچوں کے علاج کا خرچ برداشت کرنے کی سکت نہیں، اس کا کہنا ہے کہ پرائیوٹ اسپتالوں میں علاج کرانے کے لئے درکار رقم اس کے پاس نہیں اور سرکاری اسپتالوں میں علاج نہ ہونے کے برابر ہے۔
دوداخان کا کہنا تھا کہ ان چند سالوں میں وہ اپنے بچوں کو کئی سرکاری اسپتالوں میں لے جاچکا ہے لیکن اب تک اس کے بچوں کے مرض کی تشخیص نہیں ہوسکی، کچھ ڈاکٹرزاس بیماری کو گردن توڑ بخار، تو کوئی کالا یرقان اور بعض ڈاکٹرز اسے پیلیا کی بگڑی ہوئی شکل قراردیتے ہیں۔
کشمور کے اس محنت کش کو امید ہے کہ غریب پرور شہر میں اس کے بچوں کے علاج کے لئے کوئی صاحبِ حیثیت شخص آگے آئے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمیں پیسے نہیں چاہیے ہیں، کوئی بھی شخص یا ادارہ ان کے ان بچوں کا مکمل علاج معالجہ کروا کرانہیں اس تکلیف سے نجات دلادے۔