تازہ ترین

چاند پر پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ مشن آج روانہ ہوگا

چاند پر پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ مشن آج چین...

دیامر: مسافر بس کھائی میں گرنے سے 20 مسافر جاں بحق، متعدد زخمی

دیامر: یشوکل داس میں مسافر بس موڑ کاٹتے ہوئے...

وزیراعظم نے گندم درآمد اسکینڈل پر سیکرٹری فوڈ سیکیورٹی کو ہٹا دیا

گندم درآمد اسکینڈل پر وزیراعظم شہبازشریف نے ایکشن لیتے...

پی ٹی آئی نے الیکشن میں مبینہ بے قاعدگیوں پر وائٹ پیپر جاری کر دیا

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے...

صدرِ مملکت نے عدالتی اصلاحات کا بل نظرثانی کیلئے پارلیمنٹ کو واپس بھجوادیا

اسلام آباد: صدر مملکت عارف علوی نے آرٹیکل 75 کےتحت پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پارلیمنٹ کو واپس بھجوایا اور کہا بل قانونی طور پر مصنوعی اور ناکافی ہونے پر عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔

تفصیلات کے مطابق صدرعارف علوی نے عدالتی اصلاحات کا بل نظرثانی کیلئے واپس بھجوادیا، صدر نے آرٹیکل 75 کے تحت پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پارلیمنٹ کوواپس بھجوایا۔

عارف علوی نے کہا کہ بادی النظرمیں یہ بل پارلیمنٹ کےاختیارسےباہرہے، بل قانونی طورپرمصنوعی،ناکافی ہونے پرعدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے، بل درستگی سے متعلق جانچ پڑتال کیلئے دوبارہ غور کرنےکیلئےواپس کرنامناسب ہے۔

صدرمملکت کا کہنا تھا کہ آئین سپریم کورٹ کواپیلی،ایڈوائزری،ریویو،ابتدائی اختیارسماعت سےنوازتاہے، بل آرٹیکل 184/3،عدالت کے ابتدائی اختیارسماعت سےمتعلق ہے ، بل کا مقصد ابتدائی اختیارسماعت استعمال کرنےاور اپیل کرنے کا طریقہ فراہم کرنا ہے۔

عارف علوی نے سوال کیا کیااس مقصدکو آئین کی دفعات میں ترمیم کے بغیر حاصل کیا جا سکتا ہے ؟ آئینی دفعات میں ایک عام قانون سازی کےذریعےترمیم نہیں کی جاسکتی ، آئین کوئی عام قانون نہیں بلکہ بنیادی اصولوں، اعلیٰ قانون اور دیگر قوانین سے بالاتر قانون کا مجسمہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 191 سپریم کورٹ کو عدالتی کارروائی،طریقہ کار ریگولیٹ کرنے کیلئے قوانین بنانےکااختیار دیتاہے، آئین کی ان دفعات کےتحت سپریم کورٹ رولز 1980 میں بنائے گئےجن کی توثیق خود آئین نے کی۔

صدر مملکت نے کہا کہ سپریم کورٹ رولزپر 1980 سے عمل درآمد کیا جارہا ہے، جانچ شدہ قواعدمیں چھیڑ چھاڑ ،عدالت کی اندرونی کارروائی،خودمختاری اور آزادی میں مداخلت کےمترادف ہوسکتی ہے، ریاست کے3ستونوں کےدائرہ اختیار، طاقت اور کردارکی وضاحت آئین نےہی کی ہے۔

عارف علوی کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 67 کےتحت پارلیمان کو آئین کے تابع رہتے ہوئے اپنے طریقہ کار اور کاروبار کو منظم کرنے کیلئے قواعد بنانے کا اختیار حاصل ہے اور آرٹیکل 191 کےتحت آئین وقانون کے تابع رہتے ہوئے سپریم کورٹ کارروائی اور طریقہ کار کو ریگولیٹ کرنے کے قواعد بنا سکتی ہے۔

انھوں نے جواب میں کہا کہ آرٹیکل 67 اور 191 ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اور قواعد بنانے میں دونوں کی خودمختاری کو تسلیم کرتے ہیں جبکہ آرٹیکل 67 اور 191 دونوں اداروں کو اختیارمیں مداخلت سے منع کرتے ہیں۔

صدر مملکت کا مزید کہنا تھا کہ عدلیہ کی آزادی کو مکمل تحفظ دینے کیلئےآرٹیکل 191 کودستور میں شامل کیا گیا ،آرٹیکل 191 کے تحت سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار سے باہر رکھا گیا، پارلیمنٹ کاقانون سازی کا اختیار بھی آئین سے ہی اخذ شدہ ہے۔

عارف علوی نے بتایا کہ آرٹیکل 70وفاقی قانون سازی کی فہرست میں شامل کسی بھی معاملے پر بل پیش کرنے اور منظوری سے متعلق ہے اور آرٹیکل 142 اے کے تحت پارلیمنٹ وفاقی قانون سازی کی فہرست میں کسی بھی معاملے پرقانون بنا سکتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ فورتھ شیڈول کےتحت پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کےعلاوہ تمام عدالتوں کےدائرہ اختیارحوالے سےقانون سازی کااختیار ہے اور اسی کے تحت سپریم کورٹ کو خاص طور پر پارلیمان کے قانون سازی کے اختیار سے خارج کیا گیا ہے۔

صدرمملکت کا کہنا تھا کہ بل بنیادی طور پر پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار سے باہر ہے ،بل کے ان پہلوؤں پرمناسب غور کرنے کی ضرورت ہے۔

Comments

- Advertisement -