بنگلہ دیش حکومت کے خلاف طلبہ احتجاج سول نافرمانی تحریک میں تبدیل ہونے کے بعد جھڑپوں میں مرنے والوں کی تعداد 300 تک جا پہنچی ہے۔
غیر ملکی خبر میڈیا کے مطابق بنگلہ دیش میں کوٹا سسٹم اور حسینہ واجد حکومت مخالف طلبہ مظاہروں میں شدت آ گئی ہے۔ مظاہرین اور پولیس کے درمیان تازہ جھڑپوں میں مزید 100 کے لگ بھگ افراد ہلاک ہو گئے۔ جن میں 14 پولیس اہلکار بھی شامل ہیں جب کہ ملک میں اس شورش میں مرنے والوں کی مجموعی تعداد کم از کم 300 تک جا پہنچی ہے۔
سول نافرمانی کی اس تحریک میں گزشتہ روز ڈھاکا سمیت دیگر شہروں میں ہزاروں مظاہرین سڑکوں پر نکلے۔ مظاہرین نے متعدد گاڑیوں اور املاک کو بھی آگ لگا دی جب کہ درجنوں افراد جھڑپوں میں زخمی بھی ہوئے ہیں۔
بنگلا دیش کی حالیہ تاریخ کے کسی بھی احتجاج میں یہ ایک روز میں ہلاکتوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔ 11 ہزار سے زائد مظاہرین گرفتار کیے جا چکے ہیں جب کہ ملک بھی میں دوبارہ غیر معینہ مدت تک کے لیے کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔
مظاہرین نے آج ملک بھر کے عوام سے ڈھاکا کی طرف مارچ کرنے کی اپیل کی ہے۔ دوسری جانب وزیرِ اعظم حسینہ واجد کی ضد برقرار ہے اور انہوں نے احتجاج کرنےوالے طلبہ کو دہشتگرد قرار دیتے ہوئے مظاہرین سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے احکامات صادر کر دیے ہیں۔
حکومت نے دوران کرفیو گھروں سے نکلنے والے افراد کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم جاری کیا ہے جب کہ ملک بھر میں بدھ تک عام تعطیل کا بھی اعلان کر دیا ہے۔
بنگلہ دیش میں کوٹا سسٹم کے خلاف طلبہ احتجاج جو اب حسینہ واجد ہٹاؤ تحریک میں تبدیل ہو گیا ہے اور مظاہرین حسینہ واجد سے فوری مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
دوسری جانب بنگلہ دیش کے آرمی چیف جنرل وقار نے واضح کہہ دیا ہے کہ فوج عوام کے ساتھ تھی، ہے اور رہے گی۔ عوام کے جان و مال اور اہم سرکاری تنصیبات کا تحفظ ہر قیمت پر یقینی بنایا جائے گا۔
سابق آرمی چیف اقبال کریم کی بھی سابق فوجی افسران کے ساتھ پریس کانفرنس میں کہنا تھا کہ فوج کو شرمناک مہم میں استعمال نہ کریں اور فوج کے وقار کو تباہ نہ کیا جائے۔