تازہ ترین

پنجاب، کے پی انتخابات کیس کا فیصلہ محفوظ

سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا انتخابات التوا کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے جو کل سنایا جائے گا۔

اے آر وائی نیوز کے مطابق پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کے التوا کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے دائر درخواست سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کئی روز سماعت کے بعد آج فیصلہ محفوظ کر لیا ہے جو کل سنایا جائے گا۔

آج صبح سماعت شروع ہونے سے قبل وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں اپنا موقف تحریری طور پر جمع کرایا۔ اس میں وفاقی حکومت نے کیس کی سماعت کرنیوالےسپریم کورٹ کے موجودہ بینچ پر اعتراض کر دیا ہے۔

بعد ازاں سماعت شروع ہونے پر سپریم کورٹ نے پنجاب اور کے پی الیکشن التوا کیس میں حکومتی اتحاد کے وکلا کو سننے سے انکار کردیا، چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت عدالت کا بائیکاٹ نہیں کرسکتی ، بائیکاٹ کرنا ہے تو عدالتی کاروائی کا حصہ نہ بنیں۔

سماعت کے دوران ایڈیشنل سیکریٹری خزانہ عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے اور سیکریٹری خزانہ کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ جمع کرائی جب کہ سیکریٹری دفاع کو کل تک کی مہلت دے دی۔ اس موقع پر کچھ دیر کے لیے سماعت میں وقفہ کیا گیا۔ سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے اپنے دلائل شروع کیے۔

عرفان قادر نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اگر جج پر اعتراض ہو تو وہ بینچ سے الگ ہو جاتے ہیں۔ ایک طرف ایک جماعت اور دوسری طرف تمام جماعتیں ہیں۔ بینچ سے جانبداری منسوب  کی جا رہی ہے۔ پوری پی ڈی ایم ماضی میں بھی فل کورٹ کا مطالبہ ک رچکی ہے اور اس معاملے پر عدالت اپنی رائے دے چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالت پر عدم اعتماد نہیں انصاف ہوتا نظر آنا چاہیے۔ عدالت کا ایک فیصلہ پہلے ہی تنازع کا شکار ہے اور فی الحال انصاف ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے۔ الیکشن کی تاریخ دینے کا فیصلہ الیکشن کمیشن پر چھوڑنا چاہیے۔ فیصلہ تین دو کا تھا یا چار تین کا اس پر بات ہونی چاہیے۔ 9 میں سے 4 ججز نے درخواستیں خارج کیں، تین ججز نے حکم جاری رکھا۔ یکم مارچ کا عدالت حکم اقلیتی نوٹ تھا۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ فیصلے کی تناسب کا تنازع ججز کا اندرونی معاملہ نہیں ہے۔ عدالت اس تنازع کو حل کرنے کیلئےاقدامات کرے اور درخواستیں خارج کرنیوالے چاروں ججز کو بھی بینچ میں شامل کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ سرکلر سے عدالتی فیصلے کا اثر ختم نہیں کیا جاسکتا اور چیف جسٹس اپنے سرکلر پر خود جج نہیں بن سکتے۔ عوام کا عدلیہ پر اعتماد ہونا لازمی ہے۔ ایک گروپ کے بنیادی حقوق پر اکثریت کے حقوق کو ترجیح دینی چاہیے۔

عرفان قادر ایڈووکیٹ نے کہا کہ قومی مفاد آئین اور قانون پر عملدرآمد میں ہے تاہم آئین میں 90 دن میں انتخابات ہونا الگ چیز ہے۔ کئی سال سے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات اکٹھے ہوتے ہیں۔ اس بار بھی ملک بھر میں انتخابات ایک ساتھ ہونےچاہئیں۔ اس سے مالی بچت بھی ہوگی۔

عرفان قادر نے کہا کہ قومی اسمبلی کے انتخابات میں بھی نگراں حکومت ضروری ہے۔ صوبائی اسمبلی چند ماہ پہلے تحلیل ہوئی ہے دو سال پہلے نہیں۔ ہائیکورٹس میں مقدمات کی سماعت روکناآئین کے مطابق نہیں۔ خیبر پختونخوا میں گورنر نے الیکشن کی تاریخ دیدی ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پنجاب میں صدر کو تاریخ دینے کا حکم قانون کے مطابق نہیں۔ صدر آزادانہ طور پر کوئی فیصلہ کرنے کے مجازنہیں وہ ہر کام میں کابینہ کی ایڈوائس کا پابند ہے اور ان کا تاریخ دینے کا حکم خلاف آئین ہے۔ الیکشن ایکٹ میں صدر کو اختیار صرف عام انتخابات کیلئے ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ 184 تھری تنازع حل کرنے تک مقدمے پر سماعت روکی جائے۔ جسٹس قاضی فائز سینئر جج ہیں انکے فیصلے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس فائز عیسیٰ سے پرسوں ملاقات ہوئی ہے۔ انہوں نے کچھ ایشوز ہائی لائیٹ کیے ہیں ان معاملات پر تمام ججز جلد ملیں گے اور رولز بنانے کیلیےعنقریب فل کورٹ اجلاس بلائیں گے۔ جسٹس قاضی فائز والے فیصلے کے نتیجے میں ایک جج نے سماعت سے معذرت کی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جن ججز نے سماعت سے معذرت کی ان کے حکم نامے ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ بینچ سے کسی جج کو نکالا نہیں جاسکتا یہ قانون کا اصول ہے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ہر مرتبہ ججز کی معذرت کرنے کا آرڈر نہیں ہوتا۔ کئی بار تین ججز اٹھ کر جاتے تھے اور دو ججز واپس آتے تھے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس طرح کی تجویز عدالت کو کبھی نہ دیں۔

الیکشن کمیشن  کے وکیل نے کہا کہ آپ نے عزت سے اپنا دور گزارا ہے۔ ون مین شو کس کو کہا گیا ہے اسکی وضاحت ضروری ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز سے پوچھا تھا ون مین شو کس کو کہا تو انہوں نے کہا کہ عمومی بات کی آپ کو نہیں کہا تھا۔

چیف جسٹس کا یہ بھی کہنا تھا کہ ماحول پورے ملک کی طرح عدالت اور باہر خراب ہے۔ ماحول ٹھنڈا کرنے میں اٹارنی جنرل نے مدد نہیں کی۔ یہ ایشو پارلیمنٹ کو خود حل کرنا چاہیے تھا

الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر کےدلائل مکمل ہونے کے بعد پی پی کے وکیل فاروق ایچ نائیک، ن لیگ کے وکیل اکرم شیخ اور کامران مرتضیٰ نے دلائل دینا چاہے تو چیف جسٹس نے کہا کہ

آپ تینوں کا احترام کرتے ہیں لیکن حکومت میں شامل جماعتوں نے 3 رکنی بینچ پر عدم اعتماد کیا ہے۔ آپ ذاتی حیثیت میں نہیں آئے سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ آپ تحریری معروضات دے دیں جائزہ لے لیں گے۔ اس موقع پر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ میں گورنر اور سیاسی جماعت دونوں کا وکیل تھا لیکن مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے گورنر کی وکالت چھوڑ رہا ہوں۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سیکرٹری دفاع دستاویزات کب تک دیں گے جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وہ آج کسی بھی وقت عدالت کو دستاویز دے دیں گے۔

اس کے بعد پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر کا جواب الجواب شروع ہوا تو انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار پرکسی نے بات نہیں۔ اس نے نہیں بتایا اسے الیکشن ملتوی کا اختیار کہاں سے ملا ۔ الیکشن ایکٹ آئین سےبالاتر نہیں ہو سکتا۔ الیکشن کمیشن نے حکم میں آرٹیکل 218 تھری کا حوالہ دیا۔ یہ آرٹیکل الیکشن کرانے کا پابند بناتا ہے۔ الیکشن کمیشن آئین سے بالاتر کوئی کام نہیں کرسکتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آئین اور قانون واضح ہے کہ انتخابات کی تاریخ کون دے گا ۔ عرفان قادر نے درست کہا کہ صدر سفارش کے بغیر کچھ نہیں کر سکتا۔ کیاصدرالیکشن کی تاریخ ایڈوائس کےبغیر دے سکتے ہیں؟

سپریم کورٹ نے تمام دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا جو کل سنایا جائے گا۔

Comments

- Advertisement -