صدا کار و اداکار تو وہ تھے ہی باکمال، قاضی واجد کی صلاحیتوں کے معترف اور ان کے مداح تو ہم سب ہیں، لیکن ان کی شخصیت کا ایک روشن حوالہ ان کی عاجزی، خلوص اور دوسروں سے تعاون اور مدد کا جذبہ بھی ہے۔
قاضی واجد نہایت شفیق، سبھی سے پیار اور محبت کرنے والے انسان تھے۔
سبھی کو پیار محبت سے، مل جل کر رہنے کی تلقین کرنے والے قاضی واجد کو ہم سے بچھڑے دو سال بیت گئے۔
آج ان کی برسی ہے اور ساتھی فن کاروں سمیت مداح ان سے وابستہ یادیں تازہ کر رہے ہیں۔
ان اصل نام قاضی عبدالواجد انصاری تھا۔ قاضی واجد نے 1943 میں گوالیار کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی اور قیامِ پاکستان کے بعد ان کا خاندان کراچی میں بس گیا۔
ریڈیو سے اپنے فنی سفر کا آغاز کرنے والے قاضی واجد نے بچوں کے پروگرام کے لیے صدا کاری کے بعد جب قاضی جی کا قاعدہ شروع کیا تو زبردست کام یابی نصیب ہوئی۔ یہ پروگرام کئی سال جاری رہا۔
اسی دور میں فلم بیداری میں چائلڈ آرٹسٹ کے طور پر کام کیا۔ پھر تھیڑ کی طرف آنکلے اور 1967 میں پروگرام ”آج کا شعر“ سے ٹی وی کی دنیا میں قدم رکھ دیا۔
اسٹیج پرفارمنس کی بات کی جائے تو انھوں نے خواجہ معین الدین کے مشہور ڈرامے’تعلیم بالغاں‘، ’وادیِ کشمیر‘، ’مرزا غالب بندر روڈ‘ میں کام کر کے خوب داد سمیٹی۔
ٹی وی سے پیش کش گویا ان کے لیے ملک بھر میں پہچان کا وسیلہ بنی۔ ٹی وی کے لیے پہلا ڈراما ’ایک ہی راستہ‘ تھا، جس میں قاضی واجد نے منفی کردار نبھایا۔
1969’خدا کی بستی‘ وہ ڈراما سیریل تھا، جس نے قاضی واجد کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا۔ اس میں انھوں نے ’راجا‘ کا کردار ادا کیا تھا۔
اس کے اگلے برسوں میں ’تنہائیاں‘، ’ان کہی‘، ’دھوپ کنارے‘، ’حوا کی بیٹی‘ اور ’چاند گرہن‘ جیسی لازوال اور یادگار کہانیوں میں انھوں نے اپنا کردار نبھایا اور ناظرین کو اپنا مداح بنا لیا۔
قاضی واجد نے زیادہ تر سنجیدہ، منفی اور مزاحیہ کردار نبھائے اور اپنی جان دار اداکاری سے انھیں یادگار بنایا۔
1988 میں انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا۔ 11 فروری 2018 ان کی زندگی کا آخری سال ثابت ہوا۔