اسرائیلی بربریت کے باعث رفح شہر خیموں کی بستیوں میں تبدیل ہوکر رہ گیا ہے، ایسے وہاں دل دہلا دینے والے واقعات دیکھنے کو مل رہے ہیں، بے بسی کا عالم یہ ہے کہ فلسطینی پناہ گزین بھوک مٹانے کے لیے درختوں کے پتے کھانے پر مجبور ہوچکے ہیں۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق رفح سے ملنے والی اطلاعات سے معلوم ہوا ہے کہ بہت سارے فلسطینی خیموں کے بغیر کھلے آسمان زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
تقریباً 100 دن سے جاری جنگ نے ہزاروں فلسطینیوں کو بے گھر کر دیا ہے۔ شدید سردی اور بارش سے بچاؤ کے لیے بھی ان کے پاس کچھ نہیں ہے۔
پناہ گزینوں کی مدد اور ان کے روزگار پر مامور بین الاقوامی ایجنسی (اونروا) کے اعدادوشمار کے مطابق مصری سرحد سے ملنے والے رفح شہر کی خیمہ بستی میں کم از کم 10 لاکھ فلسطینی سکونت اختیار کئے ہوئے ہیں۔ یہ تعداد غزہ پٹی کے کل باشندوں کا 50 فیصد ہے۔
ایک فلسطینی عبدالسلام حمد نے دردناک صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ تین دن سے بغیر خیمے کے کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ ہم نے خیمے میں رہنے والے دیگر پناہ گزینوں سے خواتین کو اپنے یہاں ٹھہرانے کی اجازت طلب کی تھی، جس پر ان کے مرد خیموں سے باہر آ گئے اور عورتوں کو خیمے میں پہنچا دیا گیا۔
ایک اور پناہ گزین غنام کا کہنا تھا کہ خوراک کا حصول انتہائی مشکل ہو گیا ہے ہمیں بتایا گیا ہے کہ کئی لوگ بھوک دور کرنے کے لیے پتوں کا سہارا بھی لے رہے ہیں۔
غیر قانونی طریقے سے سعودی عرب پہنچنے والا پاکستانی گرفتار
فلسطینی ہلال احمر کی نبال فرسخ نے صورتحال کے بارے میں بتایا کہ خان یونس میں اسرائیل کے مسلسل حملوں کے باعث یہاں بہت بڑی تعداد میں لوگ پہنچ رہے ہیں۔