نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیں
ڈریٹن میں ہمت نہیں تھی کہ اندھیرا پھیلنے تک اس جگہ سے حرکت بھی کرے جہاں وہ چھپا ہوا تھا۔ اس پر بدحواسی چھائی ہوئی تھی اور وہ دبک کر بیٹھا تلی ہوئی مچھلیوں اور پھلیوں کی خوش بو سونگھ رہا تھا۔ اس کے پیٹ میں سخت بھوک سے چوہوں نے طبل جنگ بجا دیا تھا۔ آخر کار اس سے رہا نہ گیا اور اس نے اپنی جادوئی طاقت استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس نے شہد کی مکھیوں کو حکم دیا کہ وہ چھتے چھوڑ کر کیمپنگ ایریا پر حملہ کریں اور اس ٹرپ کو برباد کر دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت جولیان باقی سب کو اپنے تسمانیہ کے سفر کی روداد سنا رہا تھا، جب درختوں پر موجود چھتوں سے شہد کی مکھیوں کے غول کے غول کیمپ کی طرف بڑھے۔ ابتدا میں چند مکھیاں ان تک پہنچیں تو انھوں نے توجہ نہیں دی لیکن کچھ ہی دیر میں وہ چونک اٹھے۔ فیونا نے اپنے چہرے کے پاس اڑنے والی مکھی کو ہاتھ لہرا کر بھگایا اور حیرت سے کہا: ’’یہ مکھیوں کو کیا ہو گیا ہے؟‘‘
اینگس نے کہا اف خدا بہت ساری شہد کی مکھیاں چلی آ رہی ہیں۔ پھر ان میں سے ہر ایک کے منھ سے تکلیف دہ آوازیں نکلنے لگیں، وہ سب شہد کی مکھیوں کو مار رہے تھے لیکن وہ بھی ڈنک مارنے میں کامیاب ہو رہی تھیں کیوں کہ بہت زیادہ تھیں۔ مجبور ہو کر وہ اٹھے اور ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ ہر ڈنک کے ساتھ ان کے منھ سے تکلیف دہ چیخ نکلتی تھی۔ ایسے میں جونی کے دماغ نے کام کیا اور وہ چلا کر بولا: ’’یہ ڈریٹن کی کارستانی ہے۔‘‘
انکل اینگس نے یہ سن کر اپنا جبڑا رگڑتے ہوئے کہا فیونا سے کہا کہ وہ بھی جانوروں سے بات کر سکتی ہے تو ان سے بات کر کے جان چھڑاؤ۔ فیونا کو خود شہد کی مکھیوں سے بہت ڈر لگ رہا تھا، اس نے ڈرتے ڈرتے مکھیوں کو پیغام بھیجا: ’’میرے دوستوں کو ڈنک مارنا بند کر دو۔ میری ممی گھر میں شہد کی مکھیاں خود پالتی ہیں اور دیکھ بھال کرتی ہیں، تم ہمارے ساتھ ایسا کیوں کر رہے ہو؟‘‘
کئی شہد کی مکھیاں فیونا کے پاس اڑ کر گئیں اور کہا کہ انھیں ڈریٹن نے حملہ کرنے کا حکم دیا ہے، اور جب حکم دیا جائے تو انھیں ماننا پڑتا ہے۔ فیونا نے کہا تو میں تمھیں رکنے کا حکم دیتی ہوں، ڈریٹن بہت بری آدمی ہے، اسے تمھاری حفاظت کی بھی کوئی پروا نہیں ہے، دیکھو تم میں سے کتنی مکھیاں زمین پر مری پڑی ہیں، جاؤ اور ڈریٹن کو تلاش کر کے اسے ڈنک مارو، وہ ایک شریر آدمی ہے۔‘‘
مکھیوں نے کہا کہ وہ ہمیشہ برائی سے زیادہ اچھائی کے حکم پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ فیونا سے بات کرنے والی مکھی اڑ کر دوسری طرف گئی اور گانے کی آوازیں نکالنے لگی۔ دیکھتے ہی دیکھتے شہد کی تمام مکھیاں رک گئیں اور پھر اکھٹی ہو کر اس طرف اڑنے لگیں جہاں ڈریٹن چھپا ہوا تھا۔
جب انھیں اطمینان ہو گیا تو جمی نے کراہتے ہوئے کہا ’’میرے تو صرف ایک بازو پر ایک درجن ڈنک پڑے ہیں۔‘‘ جیفرے نے کہا ’’اور میرے چہرے پر کم از کم بیس ڈنک ہیں۔‘‘ اینگس گاڑی میں بیٹھ کر دریا کی طرف گئے اور بالٹی میں پانی بھر کر لے آئے۔ سبھی بالٹی کے پاس جمع ہو کر کپڑے بھگو بھگو کر زخموں پر لگانے لگے۔
۔۔۔۔۔۔
سورج غروب ہو چکا تھا اور مکمل اندھیرا تھا۔ پہاڑی علاقے میں سخت سردی تھی، ڈریٹن کانپنے لگا تھا اور اس نے اپنے بازو اپنے گرد لپیٹ دیے تھے۔ اسے لگ رہا تھا کہ آج رات وہ سو نہیں پائے گا، اس لیے وہ اپنی کار کی طرف بڑھا۔ یہی لمحہ تھا جب شہد کی پہلی مکھی نے اسے ڈنک مارا۔ اس کے منھ سے سسکاری نکلی، اور پھر ایک اور مکھی نے اپنا ڈنک اس کے ماتھے کی جلد میں پیوست کر دیا۔ اور پھر کئی مکھیوں نے اسے گھیر لیا۔ اس کے منھ سے شدید غصے میں غراہٹ جیسی آواز نکلی: ’’بے وقت مکھیوں، تمھیں فیونا پر حملہ کرنا تھا مجھ پر نہیں۔‘‘ لیکن شہد کی مکھیوں نے اس کی بات کو نظر انداز کر دیا۔ وہ دوڑتا ہوا اپنی گاڑی کی طرف گیا، اور ایک اخبار نکال کر مکھیوں کو بھگانے لگا۔
شہد کی مکھیوں سے جان چھڑانے کے بعد اس نے سوچا کہ فیونا اس کے ساتھ کھیلنا چاہتی ہے تو چلو مزید کھیل کر دیکھتا ہوں۔ اس نے آنکھیں بند کیں اور بارش، بجلی اور اولوں کے بارے میں سوچا۔ پھر جب اس نے اپنی گاڑی کا دروازہ کھولا تو اسے بارش کے پہلے قطرے گرتے محسوس ہوئے، پھر ایک منٹ کے اندر اندر موسلا دھار بارش ہوئی۔ ’’اب مزا آئے گا ان کو۔‘‘ وہ بڑبڑایا۔