تازہ ترین

بانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیں

’’جبران، پیسوں کو چھپاؤ۔‘‘ دانیال نے اسے کہنی مار کر سرگوشی کی۔ فیونا نے بھی اس کی نظروں کو تاڑ لیا تھا اس لیے اس نے کہا: ’’یہ کوئی زیادہ بڑی رقم نہیں ہے، اس میں سے کچھ تو آپ کا کرایہ ہے، ہاں اگر آپ زیادہ ٹپ چاہتے ہیں تو ہمیں خیریت سے لے جا کر صحیح سلامت واپس پہنچا دیں۔‘‘

یہ سن کر جیکس اچانک سیدھا کھڑا ہو گیا اور تیز لہجے میں بولا: ’’اپنے لائف جیکٹس پہن لیں، یہ اصول ہے یہاں کا۔ ہو سکتا ہے یہ آپ لوگوں کے لیے تکلیف دہ ہو لیکن انھیں پہننا ضروری ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے کشتی اسٹارٹ کر دی اور وہ ذرا دیر میں کھلے سمندر میں پہنچ گئے۔ وہ ان تینوں کو جزائر کے گرد پھرنے والے سمندری ڈاکوؤں کے بارے میں بتانے لگا، اس نے بتایا کہ یہاں ایسی کھاڑیوں کی بے شمار کہانیاں پھیلی ہوئی ہیں جہاں خزانہ دفن ہے اور وہ آسیب زدہ ہیں۔ جیکس نے انھیں بڑے بڑے گھونگوں اور کن کھجوروں سے بھی خبردار کیا اور کہا کہ ناریل کے کسی درخت کے نیچے بھی کھڑے مت ہونا، لیکن اس کی وجہ کوئی آسیب نہیں تھا بلکہ اس نے بتایا کہ دراصل یہاں دنیا کے سب سے اونچے ناریل درخت ہیں، اگر ایک ناریل آپ کے سر پر گرا تو آپ کی کھوپڑی پل بھر میں چٹخ جائے گی۔

یہ سن کر جبران کو پسینہ آ گیا، اس نے کہا: ’’جی ہم ناریل کے درختوں سے بچ کر رہیں گے لیکن یہ بڑے گھونگوں اور کن کھجورے کیسے ہیں؟ کتنے بڑے ہیں یہ؟ اور آسیب زدہ کھاڑیوں کے بارے میں مزید کچھ بتائیں۔‘‘

’’سلہوٹ آئس لینڈ پر آپ کو بہت ساری عجیب و غریب مخلوقات دکھائی دیں گی۔‘‘ جیکس ہنس کر بولا: ’’لیکن جب تک آپ انھیں نہیں چھیڑیں گے، یہ آپ کو نقصان نہیں پہنچائیں گی۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ دل چسپی سے تینوں کو دیکھنے لگا، تینوں اس کی باتیں سن کر دل ہی دل میں ڈر گئے تھے۔ وہ بتانے لگا: ’’جزیرے کے غاروں میں سے کسی ایک غار میں بہت بڑا خزانہ چھپا ہوا ہے۔ کسی زمانے میں یہاں سے ایک تجارتی جہاز گزر رہا تھا جس پر بہت بڑا خزانہ لدا تھا لیکن بحری جہاز کو سمندری ڈاکوؤں نے حملہ کر کے تباہ کر دیا اور سارا خزانہ لوٹ کر انھی غاروں میں سے کسی ایک میں چھپا دیا، لیکن آج تک کسی کو اس خزانے کا سراغ نہیں ملا ہے۔‘‘

جیکس نے انھیں بتایا کہ بہت سارے لوگ خزانے کی تلاش میں آئے لیکن موت کے منھ میں چلے گئے۔ یہ باتیں سن کر وہ ساکت بیٹھے سنتے رہے۔ پھر ان کی کشتی ساحل پر پہنچ گئی۔ جیکس نے کہا: ’’اب آپ کشتی سے اتر کر کنارے تک جائیں کیوں کہ آگے کشتی نہیں جا سکتی۔ چوں کہ آپ نے مجھے اچھا کرایہ دیا ہے اس لیے میں چھ گھنٹوں تک آپ کی واپسی کا انتظار کروں گا اور اس دوران مچھلیاں پکڑوں گا۔ لیکن آپ لوگ دیر مت کرنا، ہمیں چھ گھنٹوں میں واپس جانا ہے، کیوں کہ میں اندھیرے میں کھلے سمندر میں کشتی نہیں نکالنا چاہتا۔‘‘

’’کیوں؟‘‘ جبران کے منھ سے بے ساختہ نکلا، وہ ایک دم گھبرا گیا تھا۔

’’بحری ڈاکوؤں کے بھوت…‘‘ جیکس نے سنسنی خیز لہجے میں کہا: ’’میں نے خود بھی دیکھے ہیں۔ ان کا بھوت جہاز بھی رات کو جزیروں کے ارد گرد گھومتا ہے۔ اگر آپ انھیں قریب سے دیکھ لیں گے تو پھر واپس کبھی ساحل پر نہیں آ پائیں گے۔‘‘

تینوں پھٹی آنکھوں سے جیکس کی طرف دیکھ رہے تھے، انھیں ریڑھ کی ہڈیوں میں سرد سی لہر دوڑتی محسوس ہوئی۔ تینوں اسی عالم میں کشتی سے پانی میں اتر گئے اور ساحل کی طرف بڑھنے لگے۔ ایک قدم اٹھانے کے بعد جبران نے مڑ کر دیکھا اور بولا: ’’مجھے آپ کی باتوں پر بالکل یقین نہی ہے مسٹر جیکس، آپ ہمیں محض ڈرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

جیکس نے اس کی بات سن کر کوئی جواب نہیں دیا، بس زیر لب مسکرانے لگا۔

(جاری ہے)

Comments

- Advertisement -