تازہ ترین

آئی ایم ایف کا پاکستان کو سخت مالیاتی نظم و ضبط یقینی بنانے کا مشورہ

ریاض: عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے سخت...

اسحاق ڈار ڈپٹی وزیراعظم مقرر

وزیرخارجہ اسحاق ڈار کو ڈپٹی وزیراعظم مقرر کر دیا...

جسٹس بابر ستار کے خلاف بے بنیاد سوشل میڈیا مہم پر ہائیکورٹ کا اعلامیہ جاری

اسلام آباد ہائیکورٹ نے جسٹس بابر ستار کی امریکی...

وزیراعظم کا دورہ سعودی عرب، صدر اسلامی ترقیاتی بینک کی ملاقات

وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ سعودی عرب کے دوسرے...

رفیق غزنوی کا تذکرہ جو اپنا خاکہ لکھنے پر منٹو سے خفا تھے

سعادت حسن منٹو نے رفیق غزنوی کا شخصی خاکہ لکھا تو خوش ہونے کے بجائے کہا کہ منٹو دوستوں کی زندگی کو بیچ رہا ہے۔ رفیق برصغیر کے نام ور موسیقار، گلوکار اور اداکار تھے جن کی نظر میں‌ شاید منٹو کچھ زیادتی کر گئے ہوں گے۔ آج رفیق غزنوی کی برسی ہے۔

اس فن کار کی زندگی کے اوراق الٹتے ہوئے ہم اُس خاکے سے چند پارے بھی آپ کے سامنے رکھیں‌ گے جس نے رفیق غزنوی کو دکھی کردیا تھا۔ رفیق غزنوی 1907ء میں راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ اپنے فلمی کیریئر کا آغاز اداکاری سے کیا۔لاہور میں بننے والی پہلی ناطق فلم ہیر رانجھا میں انہوں نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ اس فلم کی موسیقی بھی انہوں نے ترتیب دی اور خود پر فلمائے گئے تمام گیت بھی اپنی آواز میں‌ ریکارڈ کروائے۔ 1974ء میں آج ہی کے دن رفیق غزنوی کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ آج برصغیر کے اس نام ور موسیقار، گلوکار اور اداکار کی برسی ہے۔

مذکورہ فلم کے بعد وہ دہلی جا کر آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہو گئے تھے۔ پھر بمبئی منتقل ہوئے جہاں انہوں نے لیلیٰ مجنوں اور سکندر سمیت کئی فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔ تقسیم ہند کا فیصلہ ہوا تو رفیق غزنوی کراچی چلے آئے اور ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوئے۔ انہوں نے برصغیر کی تقسیم سے قبل بڑا عروج دیکھا مگر تقسیم ہند کے بعد ان کی زندگی کا بڑا حصّہ غیر تخلیقی رہا اور ان کے مشاغل کچھ الگ ہوگئے جن میں عشق لڑانا اور رومانس شامل تھا۔ پاکستان کی معروف گلوکارہ اور اداکارہ سلمیٰ آغا رفیق غزنوی کی نواسی جب کہ معروف فلمی ہدایت کار ضیاء سرحدی ان کے داماد تھے اور خیام سرحدی بھی ان کے نواسے تھے۔

رفیق غزنوی نے گورڈن کالج راولپنڈی سے گریجویشن کیا۔ استاد عبدالعزیز خان صاحب سے موسیقی کے اسرار و رموز سیکھے اور برصغیر کے صف اوّل کے موسیقاروں میں ان کا نام لیا گیا۔ رفیق غزنوی اس کمیٹی کے رکن تھے جس نے پاکستان کے قومی ترانے کی دھن منظور کی تھی مگر ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل زیڈ اے بخاری سے اختلافات کے باعث وہ ریڈیو پاکستان سے علیحدہ ہوگئے تھے۔

نصر اللہ خاں اپنی مشہور کتاب ‘کیا قافلہ جاتا ہے‘ میں لکھتے ہیں: اور جب رفیق بہت بیمار ہوا تو میں نے کہا: ”بھائی! اب تو توبہ کرلے اور اپنے لیے دُعا کر“ تو رفیق نے قہقہہ لگایا اور کہا: ”ہم اللہ میاں سے روٹھے ہوئے ہیں، اگر وہ ہمیں نہیں مناتے تو ہم اُنہیں کیوں منائیں۔ خیر یہ ہمارے اللہ میاں سے معاملات ہیں جو اب وہیں طے ہوں گے۔“

کہتے ہیں‌ کہ اپنا خاکہ لکھے جانے پر انہوں نے منٹو سے کہا: سعادت! ‘اب تم نے دوستوں کو بیچنا شروع کر دیا ہے۔‘‘‘

رفیق غزنوی بڑے رومان پسند، حسن پرست اور خوبرو نوجوان تھے، فلم کی ہیروئن انوری کو گانوں کی ریہرسل کراتے ہوئے اسے اپنا دل دے بیٹھے اور اس سے خفیہ شادی کر لی، جب انوری کی ماں کو اس صورت حال کاعلم ہوا تو اس نے تھانے میں رفیق کے خلاف پرچہ کٹوا دیا۔ لیکن لڑکی نے عدالت میں اپنی مرضی سے شادی کا بیان دے دیا۔ یوں‌ عدالت سے باعزت طور پر بری ہوئے۔ بعد میں‌ انوری کو طلاق دے دی تھی۔

اسی سال رفیق غزنوی نے اورینٹل پکچرز کی ایک فلم ’’پوترگنگا‘‘ کی موسیقی ترتیب دی، اس فلم کی تکمیل کے بعد رفیق غزنوی اپنی اہلیہ انوری کے ہمراہ لاہور سے بمبئی چلے گئے تھے جہاں انہوں نے فلم ’’پرتھوی راج سنجوگتا‘‘ اور’’انتقام‘‘ کی موسیقی ترتیب دی۔ یہ فلمیں 1933ء میں ریلیز ہوئیں، فلم انتقام میں انہوں نے سات گیت ریکارڈ کرائے تھے

1934ء میں انہوں نے ایک فلم ’’جوانی دیوانی‘‘ میں زہرا کے ساتھ بطور ہیرو کام کرنے کے ساتھ فلم کی موسیقی بھی ترتیب دی۔ فلم بندی کے دوران زہرا سے نئے عشق کو بھی شادی تک پہنچایا۔ اور پھر زہرا کو بھی طلاق دے کر اس کی بہن اداکارہ انورادھا سے شادی کر لی۔

’پشاوری موسیقار‘ کے نام سے معروف رفیق غزنوی کو ٹھمری، دادرا اور خیال گانے میں ملکہ حاصل تھا۔ ان کو مختلف راگوں پر عبور حاصل تھا۔

سعادت حسن منٹو کے جس خاکے پر رفیق غزنوی دکھی تھے، اس سے یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے:

"معلوم نہیں کیوں لیکن میں جب بھی رفیق غزنوی کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے معاً محمود غزنوی کا خیال آتا ہے جس نے ہندوستان پرسترہ حملے کیے تھے جن میں سے بارہ مشہور ہیں۔ رفیق غزنوی اور محمود غزنوی میں اتنی مماثلت ضرور ہے کہ دونوں بت شکن ہیں۔ رفیق غزنوی کے پیش نظر کوئی ایسا سومنات نہیں تھا جس کے بت توڑ کر وہ اس کے پیٹ سے زر و جواہر نکالتا پھر بھی اس نے اپنی زندگی میں کئی طوائفوں کو (جن کی تعداد بارہ تک پہنچ سکتی ہے) استعمال کیا۔ ”

"رفیق غزنوی کے نام سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے آبا و اجداد غزنی کے رہنے والے تھے۔ مجھے معلوم نہیں کہ اس نے غزنی دیکھا ہے یا نہیں۔ صرف اتنا معلوم ہے کہ وہ پشاور میں رہتا تھا، اس کو پشتو بولنا آتی ہے، افغانی، فارسی بھی جانتا ہے۔ ویسے عام طور پر پنجابی میں گفتگو کرتا ہے۔ انگریزی اچھی خاصی لکھ لیتا ہے۔ اردومیں اگر مضمون نگاری کرتا تو اس کا بڑا نام ہوتا۔”

منٹو ان کی علم و ادب سے دل چسپی اور معلومات کا حال یوں بیان کرتے ہیں:

"اس کو اردو ادب سے بڑا شغف ہے۔ اس کے پاس اردو لٹریچر کا کافی ذخیرہ موجود ہے۔ جب میں نے پہلی مرتبہ گلشن محل (بمبئے) میں اس کے کمرے میں بڑی ترتیب سے رکھی ہوئی کتابیں دیکھیں تو مجھے بڑی حیرت ہوئی۔ میرا خیال تھا کہ وہ محض ایک میراثی ہے جسے ادب سے کوئی واسطہ نہیں ہوسکتا لیکن جب اس سے باتیں ہوئیں تو اس نے ایسے ایسے مصنفوں کا نام لیا جن سے میں واقف نہیں تھا۔”

رفیق غزنوی شروع ہی سے موسیقی کے دلدادہ تھے اور فنونِ لطیفہ میں ان کی دل چسپی عمر کے ساتھ بڑھتی رہی، جب کہ طالب علمی کے زمانے میں اپنے کالج میں ہونے والے ڈراموں اوردیگر اسٹیج پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔

منٹو جیسے ممتاز افسانہ نگار نے اپنے دوست رفیق غزنوی کے لیے مضمون میں ایک جگہ لکھا: "جہاں تک میں سمجھتا ہوں کہ زندگی بھی رفیق کے نزدیک ایک طوائف ہے۔ وہ ہر رات اس کے ساتھ سوتا ہے۔ صبح اٹھتے ہی پہلے سانس کے ساتھ وہ اس سے جگت بازی شروع کردیتا ہے۔ اس کا گانا سنتا ہے، اپنا سناتا ہے، پھکڑ بازی ہوتی ہے اور یوں ایک دن ختم ہو جاتاہے۔

میں نے اس کو کبھی ملول نہیں دیکھا۔ وہ بے حیائی اور ڈھٹائی کی حد تک ہر وقت خوش رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تندرست ہے۔ اتنی عمر ہونے پر بھی آپ اسے معمر نہیں کہہ سکتے بلکہ جوں جوں اس کی عمر میں اضافہ ہورہا ہے وہ جوان ہوتا چلا جارہا ہے۔”

Comments

- Advertisement -