نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

ڈوبتے سورج کی شعاعیں مک ایلسٹر کی کھڑکی سے اندر داخل ہوئیں تو ڈریٹن اس وقت ایک بار پھر گندگی پھیلانے میں جُتا ہوا تھا۔ وہ مکمل طور پر ایک بیمار ذہنیت والا نوجوان تھا، ہمیشہ غلط کام کر کے ہی خوش ہوتا تھا۔ اس وقت وہ فرش پر بکھری خوراک کی اشیا پر چل پھر کر بیڈ روم میں داخل ہوا تو اس نے فیصلہ کیا کہ اب وہ مزید اس گھر میں نہیں رہے گا۔ وجہ ان چیزوں کی بد بو بھی جو اس نے پورے گھر میں پھیلا دی تھیں۔ الماری کے سب سے اوپری تختے پر اس نے جب کئی سلیپنگ بیگ دیکھے تو ان میں سے ایک کھینچ پر اس نے نکال لیا اور باقی فرش ہی پر پھینک دیے۔ اسے لٹکے ہوئے کپڑوں کے پیچھے ایک سوٹ کیس نظر آیا تو ہینگ سے نہایت بدتمیزی سے کپڑے کھینچ کر پھینک دیے اور پیچھے پڑا سوٹ کیس نکال لیا۔ اس کے بعد کپڑوں کی تمام الماریاں کھول کر ان میں سے مردانہ کپڑے نکالے اور سوٹ کیس میں ٹھونس دیے۔ ایک اور بیگ کو خوراک کی چیزوں سے بھرا جو ابھی تک اس نے ضائع نہیں کی تھیں۔ گھر سے نکلتے وقت اس نے آئینے میں خود کو دیکھا، اس کے گلے میں لٹکنے والے ستارے کے چار کونے روشن تھے۔ اس کے ہونٹوں پر شیطانی مسکراہٹ پھیلی۔ ’’آٹھ رہ گئے ہیں۔‘‘ وہ بڑبڑایا۔

جب وہ قلعہ آذر کے محرابی دروازے پر پہنچا تو سورج غروب ہو چکا تھا اور اندھیرے نے آسمان کو ڈھانپ لیا تھا۔ وہ مرکزی دروازے سے اندر گیا اور فرش پر دونوں بیگ پھینکے پھر سوچنے لگا کہ اسے سلیپنگ بیگ کہاں رکھنا چاہیے۔ سونے کے دوران اسے تازہ ہوا کی ضرورت تھی اس لیے اس نے دروازے ہی کے قریب سونے کا ارادہ کر لیا۔ اس نے سلیپنگ بیگ پھیلایا اور کھانے کی چیزیں نکال کر کھانے لگا، پھر ایک آواز بلند کی: ’’پہلان… میں یہاں ہوں، آؤ اور مجھے کچھ سکھاؤ۔‘‘
اسے جواب میں دوسرے کمرے سے ایک آواز سنائی دی، وہ پہلان کو پکارتا وہاں گیا تو پہلان کو بھیڑیوں کے ایک غول کے درمیان پایا۔ ’’یہ تو بالکل اصلی بھیڑیوں کی طرح نظر آ رہے ہیں۔‘‘ ڈریٹن نے ان کے تیز دانت اور رال ٹپکاتے منھ دیکھ کر کہا۔
پہلان کی سرد اور سرسراتی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی: ’’بے وقوف، یہ اصلی ہی ہیں۔ میں انھیں حکم دے سکتا ہوں، اور یہ لمحوں میں تمھارا گلا دبوچ کر چیر پھاڑ سکتے ہیں۔ یہ میرے دوست ہیں!‘‘
ڈریٹن نے ہاتھ بے اختیار اپنے گلے پر پھیرا: ’’میں سمجھا تھا کہ تم مجھے اس وقت یہاں دیکھنا چاہو گے تاکہ مجھے کچھ جادو منتر سکھا سکو۔‘‘
’’ہاں، میں تمھیں سکھانا چاہتا ہوں۔‘‘ پہلان کی خوف زدہ کر دینے والی آواز ابھری: ’’میں جو تمھیں سکھانا چاہتا ہوں اسے کہتے ہیں خوف۔ میں چاہتا ہوں کہ تمھیں بتا دوں کہ تم نے خود کو کتنے خطرناک کام میں الجھا لیا ہے۔ تم شاید سوچ رہے ہو کہ یہ کوئی کھیل ہے جس میں تم چند بچوں اور چند قدیم آدمیوں کے مقابلے پر نکلے ہو۔ لیکن میں تمھیں یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ایسا نہیں ہے۔ یہ کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔‘‘
اچانک بھیڑیوں نے حرکت کی اور ڈریٹن کے گرد پھیل گئے۔ ڈریٹن نے دیکھا کہ وہ بھیڑیوں کے دائرے میں قید ہونے لگا ہے۔ خوف کی ایک لہر اس کی ریڑھ کی ہڈی میں دوڑ گئی۔ وہ لرزتی آواز میں بولا: ’’یہ … یہ بھیڑیے کیا کر رہے ہیں؟ انھیں مجھ سے دور کرو۔‘‘
پہلان خاموشی سے دیکھتا رہا یہاں تک کہ بھیڑیوں نے اس کے گرد اپنا گھیرا مکمل کر لیا۔ تب اس نے پوچھا: ’’کیا تم خوف محسوس کر رہے ہو؟‘‘
ڈریٹن کے حلق سے ڈری ڈری آواز نکلی: ’’مجھے یہ مذاق پسند نہیں۔‘‘
پھیڑیوں نے اپنا گھیرا تنگ کر دیا۔ ڈریٹن نے دیکھا کہ بھیڑیے اس کے قریب ہو گئے اور ان کے گلوں سے نکلتی دہشت ناک غراہٹ دل و دماغ پر ہیب طاری کر رہی ہے۔
’’تو تم خوف زدہ ہو گئے ہو؟‘‘ پہلان نے ہوا میں ہاتھ بلند کر کے کہا۔ اور اگلے لمحے بھیڑیے ڈریٹن پر جھپٹ پڑے۔ ایک نے اس کی ٹانگ منھ میں دبائی، دوسرے نے ہاتھ کو اور ایک نے اس کے گلے پر جھپٹ کر اپنے نوکیلے دانت گاڑ دیے۔
ڈریٹن کے حلق سے دل دوز چیخیں بلند ہونے لگیں اور قلعے میں گونج کر رہ گئیں۔ وہ فرش پر گر پڑا تھا اور بھوکے بھیڑیے اسے چیر پھاڑ رہے تھے۔ اس کے حلق سے نکلنے والی چیخوں میں شیطان جادوگر کے قہقہے بھی شامل ہو گئے تھے۔ یکایک جادوگر نے اپنے قہقہے روک لیے اور پھر ایک لمحے کی بات تھی، جب ڈریٹن اچانک کھڑا ہو گیا۔
’’مم … میں زندہ ہوں۔‘‘ وہ خوشی سے پاگلوں کی طرح اپنے جسم پر ہاتھ پھیر پھیر کر دیکھنے لگا۔ اسے بدن پر زخم کا کوئی نشان دکھائی نہیں دیا۔ ’’مجھ پر تو بھیڑیوں نے حملہ کیا تھا۔‘‘ اس نے بے یقینی سے کہا لیکن جادوگر پہلان نے کہا: ’’بے وقوف ڈریٹن، اپنے آس پاس دیکھو، کیا یہاں کوئی بھیڑیا نظر آ رہا ہے؟‘‘
وہاں سچ مچ بھیڑیوں کا نام و نشان تک نہ تھا۔ ڈریٹن خوف زدہ بھی تھا اور حیران بھی۔ اسے اچھی طرح محسوس ہوا تھا کہ بھیڑیوں نے اس کا گلا کاٹ لیا ہے اور اسے اب بھی درد محسوس ہو رہا تھا۔ پہلان نے قہقہہ لگا کر اسے بتایا کہ یہ سب اس کے جادو کا کرشمہ تھا۔ پہلان نے جادو کے ذریعے اسے درد محسوس کرایا تھا اور کہا کہ جب وہ بھی کسی کے ساتھ ایسا کر سکے گا تو تب بڑا جادوگر کہلائے گا۔
پہلان بولا: ’’تم صرف چند کرتب ہی دکھا سکتے ہو، اس کے علاوہ تمھاری کوئی حیثیت نہیں ہے۔ جب تک تمام قیمتی پتھروں کے ساتھ وہ جادوئی گیند ہمارے ہاتھ نہیں آتا، تب تک میں تمھاری کچھ مدد نہیں کر سکتا۔ گولہ ہمارے قبضے میں آئے گا تو میں بڑے بڑے جادو تمھیں سکھا دوں گا۔ اس وقت تک تم مجھے بار بار پکار کر صرف اپنا وقت ضائع کرتے ہو۔ جب کہ میں تمھیں بتا چکا ہوں کہ ہر قیمتی پتھر کے ساتھ تمھیں کوئی نہ کوئی طاقت ملتی رہے گی۔ تم بس اسے استعمال کرنا سیکھو۔‘‘
وہ کچھ لمحوں کے لیے خاموش ہوا پھر بولا: ’’غور سے سنو میری بات، تم ایک نہایت بے وقوف لڑکے ہو۔ گھروں کا آگ لگانا چھوڑ دو اور نہ ہی بچوں کی طرح ہر جگہ اپنے جادوئی کرتبوں کا مظاہرہ کرو۔ آج کے بعد سے تم مجھے اس وقت تک نہیں دیکھ سکو گے جب تک میں یہ دیکھ نہ لوں کہ تم سننے کے لیے تیار ہو۔‘‘
یہ کہہ کر جادوگر پہلان ایک سفید شعلے کی صورت چمکا اور غائب ہو گیا۔ ڈریٹن نے اس کے جاتے ہی سکون کی ایک لمبی سانس لی اور سلیپنگ بیگ کے اندر لیٹ گیا۔ اسے محسوس ہو رہا تھا کہ خوف ناک بھیڑیے اس کی طرف دیکھتے ہوئے غرا رہے ہیں۔
(جاری ہے)

Comments