نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
اس ناول کی پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

’’تم لوگوں کو یہاں سے نکل کر جانے کی اجازت نہیں ہے۔‘‘ کرسٹل بولنے لگی: ’’تم نے زمرد نکالا ہے، یہ ہر صورت یہیں رہے گا۔ مجھے حکم دیا گیا تھا کہ میں اسے یہاں سے ادھر ادھر نہ ہونے دوں، اس لیے تم لوگ یہاں سے اب نہیں جا سکتے۔‘‘

’’ہم یہاں رہے تو مر جائیں گے۔‘‘ فیونا نے پریشان ہو کر کہا۔ ’’ہم انسان ہیں، پریاں نہیں۔ ہم کھاتے پیتے ہیں اور سانس لیتے ہیں۔ تم تو پری ہو، تمھیں کھانے پینے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ تم اولے کی طرح سفید اور برف کی طرح سرد ہو، تم خود کو دیکھو ذرا۔‘‘
اچانک جبران بولا: ’’ہم تمھارے دوستوں تک تمھیں پہنچانے کے لیے مدد کر سکتے ہیں۔‘‘ لیکن کرسٹل کی سرد اور جذبات سے خالی آواز ان کی سماعتوں سے ٹکرائی: ’’میرے دوستوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے، مجھے حکم دیا گیا تھا کہ میں یہیں رہوں۔ تم لوگ بے کار بحث کر رہے ہو، میں اپنا وعدہ نہیں توڑوں گی چاہے مر ہی کیوں نہ جاؤں۔‘‘
فیونا نے التجا کی: ’’کرسٹل، تم ایک ہزار سال قدیم ہو، تم غالباً نہیں مروگی لیکن ہم تو بچے ہیں، تمھاری طرح لمبا عرصہ نہیں جئیں گے، پلیز ہمیں جانے دو۔‘‘ جبران نے فیونا کو بازو سے پکڑ کر ذرا دور لے جا کر سرگوشی کی: ’’فیونا، تم آگ والا شعبدہ دکھاؤ، اس غار میں آگ بھڑکا کر اسے پگھلا کر رکھ دو۔ ہم گلیشیئر کے آخری سرے سے زیادہ دور نہیں ہیں۔‘‘
’’تم ٹھیک کہہ رہے ہو، مجھے اب ایسا ہی کرنا پڑے گا۔ تم ایسا کرو کہ اس ننھی پری کو باتوں میں لگاؤ، اسے پتا نہ چلے کہ میں کیا کر رہی ہوں۔‘‘
جبران کرسٹل کی طرف دوڑ کر گیا اور اچانک قہقہے لگا کر اس کے اردگرد اچھل کود کرنے لگا، پھر بولا: ’’کرسٹل، میں نے اپنا خیال بدل لیا ہے، اب میں تمھارے ساتھ یہاں رہوں گا، کیا تم مجھے برف کی مزید رنگین قلمیں دکھانا پسند کرو گی؟ اور مجھے بتاؤ کہ تم انھیں رنگین کس طرح بناتی ہو؟‘‘
کرسٹل نے ہاں میں سر ہلایا اور غار کے مزید اندر کی طرف اڑ کر جانے لگی۔ دوسری طرف فیونا دانیال کی طرف دوڑ کر گئی اور اس سے بولی کہ برف کی دیوار سے پیچھے ہٹ جائے کیوں کہ وہ اسے آگ سے پگھلانے والی تھی۔ ’’دانی، تم کوئی چیز مضبوطی سے پکڑ لو، کیوں کہ برف پگھلے گی تو پانی ریلا بہہ کر آئے گا۔‘‘
دانیال نے قریب ہی ایک لٹکتی مضبوط قلم کے گرد بازو پھیلا کر اسے جکڑ لیا۔ فیونا نے آگ کا تصور کیا اور برف کی دیواروں پر ننھے ننھے شعلے بھڑک اٹھے۔
’’دیکھو دانی، یہ شعلے برف پر کتنی پیاری چمک پیدا کر رہے ہیں۔‘‘ فیونا نے ننھے شعلے دیکھے تو خوش ہو کر کہا لیکن دانیال نے منھ بنا کر کہا: ’’بھاڑ میں گئے یہ پیارے شعلے، زیادہ آگ بھڑکاؤ تاکہ ہم یہاں سے آزاد ہو سکیں۔‘‘
فیونا نے پھر آگ پر توجہ مرکوز کر دی۔ اب ننھے شعلے یکایک دگنے تگنے ہو کر پھیل گئے، اور لمحوں میں برف پگھلنا شروع ہو گئی۔ اس نے پھر توجہ بڑھائی اور شعلے مزید بڑے ہو گئے۔ برف کی قلمیں یکے بعد دیگرے گرنے لگے ار پانی کا ریلا بہنا شروع ہوا۔ اس نے چیخ کر دانیال کو خبردار کیا: ’’خود کو سنبھالو!‘‘
لمحوں کے اندر اندر وہ دونوں پانی میں مکمل طور پر بھیگ گئے تھے۔ صاف اور برفیلے پانی نے انھیں اس طرح گھیرا جیسے کوئی انھیں زمین یا دیواروں پر پٹخ رہا ہو۔ آگ کی وجہ سے غار میں ٹھنڈا یخ دھواں پھیل گیا تھا۔ برف کے بڑے بڑے تودے ٹوٹ کر نیچے گرنے لگے اور برف کی چھت میں دراڑیں نمودار ہو گئی تھیں، جن روشی چھن کر غار میں آنے لگی تھی۔ روشنی دیکھ کر دانیال خوشی سے چیخ کر بولا: ’’فیونا، تمھارے جادو نے کام کر دکھایا، ہم آزاد ہو رہے ہیں۔‘‘
جب کرسٹل کو پتا چلا تو دیر ہو چکی تھی، وہ چیخنے چلانے لگی اور برف کے گرتے ٹکڑوں سے خود کو بچاتے ہوئے ادھر ادھر بدحواسی میں اڑنے لگی۔ ’’تم نے میرا گھر برباد کر کے اچھا نہیں کیا، تم یہاں سے باہر نہیں جا سکتی، تم نے یہیں میرے ساتھ رہنا ہے۔‘‘
اُمڈتے ہوئے پانی کے تیز دھارے نے آخرکار گلیشیئر کی دیواروں کو توڑ دیا اور پہاڑ کے نشیب کی طرف بہنے لگا۔ اس کا رخ بھی اسی طرف تھا جس طرف کچھ دیر قبل پانی کا ایک ریلا گیا تھا۔ گلیشیئر کا سامنے والا حصہ مکمل طور پر گر کر ٹوٹ چکا تھا۔ پانی کی لہر ان تینوں کو بھی اپنے ساتھ اس غار سے باہر نکال کر لے گئی۔
(جاری ہے……)

Comments