نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
کچھ ہی دیر بعد دانیال بے چینی سے اٹھا اور اگرچہ شام کے سائے پھیلنے لگے تھے، وہ ادھر ادھر چٹانوں میں کچھ ڈھونڈنے لگا۔ اسے ایک پتھر کے نیچے کچھ نظر آیا تو جھک کر اٹھانے لگا۔ یہ کوئی سنہری چمکتی چیز تھی۔ دانیال نے اسے پتھر کے نیچے سے اٹھایا۔ وہ ایک چراغ تھا جو سونے کی طرح چمک رہا تھا۔ وہ پرجوش ہو کر باقی دونوں کے پاس دوڑتا ہوا گیا اور انھیں دکھا کر چلانے لگا: ’’یہ دیکھو، جادوئی چراغ…. الہ دین کے چراغ کے بارے میں تو تم نے سنا ہوگا۔ مجھے جادوئی چراغ مل گیا ہے۔‘‘
وہ دونوں اسے دیکھ کر مسکرانے لگے۔ دانیال نے آنکھیں نکال کر کہا: ’’لگتا ہے تم دونوں نے الہ دین کے چراغ کے بارے میں نہیں سنا۔ اگر میں اسے رگڑوں گا تو ایک جن نمودار ہوگا جو میری تین خواہشیں پوری کرے گا۔‘‘
جبران کے منھ سے قہقہہ نکلا اور دانیال اسے شعلہ بار نگاہوں سے گھورنے لگا۔ ’’بے وقوف مت بنو دانی، جن جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی، اور الہ دین کی یہ کہانی بس الف لیلہ میں تھی، کوئی سچا واقعہ تھوڑی ہے۔‘‘ جبران نے کہتے کہتے مڑ کر اونٹ کی طرف دیکھا اور اسے مخاطب کر کے بولا: ’’تم ہی بتاؤ اسے کہ جادوئی چراغ جیسی کوئی شے نہیں ہے۔‘‘
اونٹ سمجھ گیا کہ جبران کیا کہہ رہا ہے، اس نے فیونا سے کہا ’’اپنے دوست سے کہو کہ سوچ وسیع رکھے، اس صحرا میں اس کا سامنا کسی بھی جادوئی چیز سے ہو سکتا ہے، جسے دیکھ کر وہ حیران رہ جائے گا۔‘‘
فیونا نے جبران سے کہا کہ اونٹ نے کیا جواب دیا ہے۔ پھر اس نے دانیال سے کہا کہ وہ چراغ کو اپنے پاس رکھے، ہو سکتا ہے شہر میں اس کی قیمت لگے۔ اس کے بعد فیونا کے کہنے پر وہ اٹھے اور دوبارہ اونٹ پر بیٹھ کر مادبا شہر کی طرف چل پڑے۔ اس بار ان کا یہ سفر ایک گھنٹے طویل رہا، یہاں تک کہ وہ مادبا پہنچ گئے۔ شہر اس وقت اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا اور انھیں دور دور تک کوئی ہوٹل بھی نظر نہیں آ رہا تھا، وہ پریشان ہو گئے۔ ایسے میں اونٹ نے ان کی پریشانی دور کی۔ اس نے فیونا سے کہا کہ یہاں پاس ہی وردہ کی سہیلی لیلیٰ کی قالین کی دکان ہے، جس کا پچھلا دروازہ عموماً کھلا ہی ہوتا ہے، تم تینوں اندر جا کر قالین پر سو جاؤ، ہاں کسی چیز کو ہاتھ مت لگانا۔ اونٹ نے انھیں دکان پر پہنچایا اور خود باہر سونے کے لیے بیٹھ گیا۔
تینوں پچھلے دروازے سے دکان میں داخل ہوئے، وہاں کوئی نہیں تھا۔ وہ قالینوں پر لیٹ کر بے سدھ سو گئے۔ جب ان کی آنکھیں کھلیں تو صبح ہو چکی تھی۔ ابھی لیلیٰ دکان پر نہیں آئی تھی، وہ تینوں اونٹ کو لے کر آگے بڑھ گئے، انھیں بھوک لگی تھی۔ ابھی انھیں کسی بینک سے برطانوی کرنسی کو اردنی دینار میں بھی تبدیل کرنا تھا۔ فیونا نے انھیں بتایا: ’’میں نے رات کو خواب میں یاقوت کو دیکھ لیا ہے، اور تم لوگ خوش نہیں ہوگے یہ سن کر کہ ہمیں اُس کے لیے واپس صحرا جانا پڑے گا۔‘‘
وہ یہ سن کر واقعی پریشان ہو گئے، جبران نے کہا کہ اس کے کولہوں اور ٹانگوں میں بہت درد ہو رہا ہے اونٹ کا پہلی بار اتنا سفر کر کے۔ دانیال نے بھی یہی شکایت کی۔ فیونا نے کہا کہ چلو پہلے کوئی بینک ڈھونڈتے ہیں۔ جب وہ جانے لگے تو اونٹ نے کہا کہ اس کے کھجور لانا نہ بھولنا۔ وہ اونٹ کو چھوڑ کر مادبا کی گلیوں میں آگے جانے لگے، ایک دکان کے باہر انھیں ایک بوڑھا شخص حقہ پیتا نظر آیا۔ کچھ ہی فاصلے پر فیونا نے بینک دیکھ لیا۔ فیونا خوش ہو گئی اور اکیلی اندر جا کر کچھ ہی دیر میں واپس آ گئی، اس کے پاس موجود رقم دینار میں تبدیل ہو چکی تھی۔
قریب ہی ایک کیفے تھا جہاں جا کر انھوں نے بوفے سے اپنی اپنی پسند کا ناشتہ چنا۔ انھوں نے انجیر، دہی، پستہ، چنوں سے بنی مزیدار ڈش حمس، زیتون اور پنیر کا ملا جلا ناشتہ کیا، جو انھیں بہت عجیب لگ رہا تھا۔
ناشتے کے بعد فیونا انھیں کیفے میں چھوڑ کر کچھ چیزیں خریدنے چلی گئی، جب کہ وہ دونوں آہستگی سے اپنے ناشتے کے ساتھ انصاف کرنے لگے۔ جب وہ باہر نکلے تو انھیں ابھی زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا تھا جب فیونا آ گئی۔ اس نے بہت ساری کھجوریں بھی خرید لی تھیں جو اونٹ کے لیے تھیں۔ اونٹ اتنی ساری کھجوریں دیکھ کر خوش ہو گیا۔ جب اس نے ساری کھجوریں چٹ کر لیں تو وہ تینوں اس پر بیٹھ کر پھر صحرا کی طرف لوٹ گئے۔ مخصوص پتھروں والے مقام پر پہنچ کر اونٹ نے کہا یہی میرے مالک کی جگہ ہے، تم کہاں جانا چاہوگی؟ فیونا نے ایک میل یا کچھ زیادہ دوری پر واقع ایک لاوارث عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’اُس صحرائی قلعے پر۔‘‘ اونٹ نے بتایا کہ اسے قصر کہتے ہیں قلعہ نہیں، البتہ مطلب ایک ہی ہے۔ اونٹ انھیں وہاں لے گیا۔ اونٹ نے کہا کہ اب وہ واپس خود اپنے مالک کے پاس چلا جائے گا، وہ فکر نہ کریں۔ اونٹ انھیں چھوڑ کر چلا گیا۔