نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
"جمعے کی یہ صبح کتنی خوش گوار ہے۔” مائری نے فیونا سے کہا جو باورچی خانے میں میز کے سامنے بیٹھی ناشتہ کر رہی تھی۔ "میں نے رات کو انتہائی عجیب خواب دیکھا۔ میں ایک خوب صورت جزیرے پر تھی۔ میرے پاس گدھے تھے اور آس پاس سفید عمارتیں نظر آ رہی تھیں۔”
فیونا کو ایک دم سے پھندا سا لگا۔ "کیا ہوا؟” مائری چونک اٹھیں۔
"کچھ نہیں… کچھ نہیں، میں ٹھیک ہوں۔” فیونا نے تیزی سے رومال سے منھ صاف کیا۔ دراصل اس کی ممی نے بات ہی ایسی کی تھی جس نے اسے چونکا دیا تھا۔ عین یہی خواب تو اس نے بھی دیکھا تھا۔ اس کے ذہن میں آیا کہ وہ کہہ دے کہ اس نے بھی یہی خواب دیکھا ہے لیکن پھر چپ رہنے کا فیصلہ کر لیا۔
"ممی ذرا جئی کا یہ کیک تو دیں۔” مائری نے پلیٹ اس کے آگے سرکا دی۔ میں نے صبح سویرے تمھارے لیے کالے بیر توڑے ہیں، بالکل تازہ ہیں، کیا تم کھانا پسند کرو گی؟”
"ضرور ممی، کیا یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔” فیونا خوش ہو کر بولی۔ "اس کا مطلب ہے کہ ہمارے باغیچے میں بیری کے درخت نے پھل دینا شروع کر دیا ہے۔”
مائری نے مسکرا کر کالے بیر سے بھرا پیالہ اس کے سامنے رکھ دیا۔ "تم اسکول کے بعد کیا کرو گی؟ میں کام سے ذرا دیر سے آؤں گی۔”
فیونا کچھ کہنے والی تھی کہ اسے بستر کے نیچے رکھی کتاب یاد آ گئی۔ "میں جبران اور دانی کے ساتھ کھیلنے جاؤں گی… اور ہو سکتا ہے کہ راستے میں انکل اینگس کے گھر پر بھی رک جائیں۔”
"یہ تو تم بہت اچھا کرو گی فیونا۔ انھیں مہمانوں کا آنا بہت اچھا لگتا ہے۔ ان کو بتانا کہ میں کل چند تازہ سبزیاں لے کر ان سے ملنے آؤں گی۔”
فیونا نے خاموشی سے اپنا ناشتہ ختم کیا اور پھر اسکول بیگ اٹھا کر بھاگتے ہوئے اسکول کی راہ لے لی۔ اسکول سے واپسی پر پہلے تو وہ گھر گئی اور پھر جبران کے گھر کی طرف چل پڑی۔ وہ دونوں گھر ہی پر مل گئے۔ فیونا کو اس کے موزے میں واضح طور پر چاقو پڑا محسوس ہوا۔ "کیا تم رات کو اسی کے ساتھ سو گئے تھے؟” اس نے حیرت سے پوچھ لیا۔ "نہیں، میں نے اسے چھپا لیا تھا۔ دراصل میں اور عرفان ایک کمرے میں سوتے ہیں، اور وہ کوئی بات چھپا نہیں سکتا، کاش میرا کوئی الگ کمرہ ہو۔”
"چھوڑو یہ باتیں، دیر ہو جائے گی، چلو۔” فیونا بولی۔ "جبران، کیا تمھارے پاپا نے اس بارے میں کوئی ذکر کیا ہے کہ وہ جونی تھامسن کو مچھلیوں کے شکار کے لیے لے کر جائیں گے؟”
"ہاں، پاپا کے مطابق جونی تھامسن یہاں پر ہے اور ان کا بھائی جلد آ رہا ہے، کیوں؟” جبران نے دانیال کو بھی آواز دے کر بلا لیا اور پھر تینوں کتاب لے کر انگل اینگس کے گھر کی طرف چل پڑے۔ راستے میں جبران نے پوچھا۔ "کیا تمھارے انکل اینگس قابل اعتماد ہیں؟”
فیونا نے بتایا ” وہ سب سے الگ تھلگ رہتے ہیں، اور رازوں کو چھپا کر رکھتے ہیں۔ اور پتا ہے وہ دن بھر صرف اپنی پالتو بلیوں کے ساتھ ہی باتیں کرتے رہتے ہیں۔”
وہ انکل اینگس کے گھر پہنچ گئے۔ جبران اور دانیال کو دور ہی سے دیواروں پر بلیاں دکھائی دے گئیں۔ فیونا نے اپنی بات جاری رکھی۔ "وہ بہت مختلف انسان ہیں، میری ممی انھیں منفرد کہا کرتی ہیں۔ ان کے گھر میں بجلی نہیں ہے، وہ کوئلہ جلاتے ہیں۔”
وہ سب دروازے پر رک گئے، فیونا نے دستک دے دی۔ ذرا دیر بعد دروازہ کھلا اور ادھیڑ عمر کا اینگس نمودار ہو گیا جو فیونا کے چچا تھے۔ اینگس فیونا کے پاپا کے بڑے بھائی تھے اور ان کی عمر پچاس سال تھی۔ جبران کو وہ بہت عجیب سے لگے۔ ان کے بال بھورے اور آنکھیں خاکی مائل نیلی تھیں۔ فیونا نے اسے بتایا تھا کہ انکل اینگس لکڑی کے کھلونے بنا کر برطانیہ میں مختلف شو کر کے انھیں فروخت کرتے ہیں۔ اسے یاد آیا کہ فیونا نے ان کا پورا نام اینگس روڈرِک مک ایلسٹر بتایا تھا۔
اینگس فیونا کو دیکھتے ہی چہک اٹھے۔ "اوہو… میری بھتیجی آئی ہے اور ساتھ میں اس کے دوست بھی ہیں۔ میں یقین سے کہ سکتا ہوں یہ تمھارے نئے دوست ہوں گے۔” فیونا یہ سن کر ہنس پڑی۔ "بالکل درست اندازہ لگایا آپ نے انکل۔”
وہ انھیں لے کر اندر لے گئے۔ آتش دان میں آگ کی لپٹیں اٹھ رہی تھیں۔ اینگس نے انھیں کرسیوں پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ ان کے سامنے اپنی مخصوص آرام کرسی پر بیٹھتے ہی بولے۔ "تو اب بتاؤ، تم میرے پاس کیا لے کر آئی ہو؟ کیوں کہ فیونا، اس سے پہلے تم کبھی اپنی ممی کے بغیر یہاں نہیں آئی ہو۔”
جبران حیرت سے چونک اٹھا۔ اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں فیونا کی طرف دیکھا تو وہ مسکرا دی۔ فیونا کے انکل نے دوسری مرتبہ بالکل درست اندازہ لگایا تھا۔ فیونا نے جواب دینے کی بجائے الٹا سوال کر دیا۔ "انکل، آپ یہ سیاہ کیتلی آگ پر لٹکائے رکھتے ہیں، آپ چولھا کیوں نہیں خرید لیتے؟”
وہ مسکرا دیے۔”میری پیاری سی بھتیجی، دراصل میں تکے، سوپ اور اسی طرح کی چیزیں ہی تیار کرتا ہوں۔ ہاں اگر کسی اور چیز کی ضرورت پڑے تو باہر جا کر خرید لیتا ہوں۔ میں بہت پرانے خیالات کا آدمی ہوں۔ دیکھو نا ہر ایک کے گھر میں بجلی ہے، گیس ہے، لیکن میرے ہاں نہیں۔ میں پرانے وقتوں کی طرح اب بھی مٹی کے تیل کے دیے اور لال ٹین جلاتا ہوں۔ اگر کبھی کچھ اور کھانے کو جی کرے تو جھیل کی طرف جاکر مچھلیاں پکڑ لیتا ہوں اور پھر مزے سے بھون کر کھاتا ہوں۔ میں خرگوش بھی بڑے شوق سے شکار کرتا ہوں اور پھر شاید تمھیں معلوم نہیں ہے کہ تمھاری ممی میرے لیے بیکری سے پیسٹری اور ڈبل روٹیاں لے کر آتی ہے۔ اس لیے فیونا، تم میرے بارے میں بالکل پریشان مت ہوا کرو۔ میں اپنے اس گھر اور اپنی حالت پر بے حد خوش ہوں۔” انھوں نے پوری تفصیل سے اپنے شب و روز کے متعلق بتا کر چپ سادھ لی۔ ماحول میں کچھ دیر کے لیے خاموشی چھا گئی۔
"سوری انکل۔” فیونا نے طویل سانس لے کر خاموشی توڑی۔ "میں آپ کو کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچانا چاہ رہی تھی، بس میں نے تو ایسے ہی پوچھ لیا تھا۔ شاید آپ کی آسانی کے لیے، تاہم آپ خوش ہیں تو یہ بہت اچھی بات ہے۔”
انھوں نے جواب میں صرف مسکرانے پر اکتفا کیا اور فیونا کے چہرے پر نگاہیں جما دیں۔ فیونا نے جھجکتے ہوئے کتاب نکالی اور ان کی طرف بڑھا دی۔ "انکل یہ کتاب ملی ہے۔ میں بس اس میں سے ایک ہی لفظ خزانہ پڑھ سکی ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ آپ گیلک زبان جانتے ہیں اس لیے آپ کے پاس لائی ہوں اسے، کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اس میں کیا لکھا ہے؟”
اینگس نے کتاب ہاتھ میں لی اور ایک ٹک اس کے کتاب پوش کو دیکھنے لگے۔