29 C
Dublin
ہفتہ, مئی 11, 2024
اشتہار

تئیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

اشتہار

حیرت انگیز

نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصّوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہاں‌ کلک کریں

بیٹھے بیٹھے فیونا تھک گئی تھی، اٹھ کر ہاتھ پیر پھیلا کر سستی دور کرنے لگی۔ پھر اس نے ماربل کی اینٹوں پر توجہ مرکوز کر دی۔ وہ سوچنے لگی کہ وہ کیا کرسکتی ہے، کیوں کہ دونوں نے آنے میں بڑی دیر لگا دی تھی اور وہ سارا دن انتظار نہیں کر سکتی تھی۔ اس نے سوچا کہ اگر میں نے اینٹ ہٹا دی تو ساری دیوار میرے اوپر آ رہے گی اور غالباً چھت بھی۔ اس نے چھت کی طرف دیکھا اور بڑبڑائی: "مجھے اس گدھے کی ضرورت ہے۔”

- Advertisement -

اسی وقت جبران اور دانیال اندر داخل ہو گئے۔ جبران نے ایک پتھر سے ٹھوکر کھائی، اس کے منھ سے تکلیف دہ آواز نکلی۔ فیونا نے مڑ کر دیکھا۔ "بہت خوب، گدھا کہاں ہے؟ کیا تم نے اسے باہر چھوڑ دیا۔”

جبران نے منھ بنا لیا۔ وہ اٹھ کر کپڑے جھاڑنے لگا۔ "کمال کیا نا میں نے ٹھوکر کھا کر۔”

"ہم گدھے کو نہیں لا سکے۔” دانیال نے دھیمے لہجے میں بتایا۔

"کیوں؟” وہ حیران رہ گئی۔

"فیونا، ہم گدھے کو ساتھ لے کر چلے تھے لیکن اس نے سیڑھیاں نہیں چڑھیں، وہ ضدی ٹس سے مس نہیں ہو رہا تھا، اور پھر کہیں سے نکولس چلا آیا۔ وہ ہمیں دیکھ کر پاگل ہونے لگا تھا۔ ہم بھاگنے میں کامیاب ہو گئے، ویسے میں رسی لے آیا ہوں۔” دانیال نے تفصیل بتا دی۔

"ہم تمھارے لیے پیٹا لائے ہیں جسے یہاں کی زبان میں گائرو کہتے ہیں، یہ بہت مزے کا ہے۔” جبران نے کہا تو فیونا نے پیٹا لے کر کھایا۔ وہ بھی تعریف کیے بنا نہ رہ سکی: "بہت مزے کا ہے لیکن چکنائی بہت زیادہ ہے۔”

"ہاں کرسٹوف کے بالوں کی طرح۔” دانیال نے دانت نکالے۔

"تو اس کا مطلب ہے کہ ہمیں گدھے کے بغیر ہی کچھ کرنا پڑے گا۔” فیونا نے پیٹا پورا کھانے کے بعد کہا۔ دونوں نے خاموشی سے سر ہلایا۔ "جب تم دونوں چلے گئے تھے تو میرا دھیان اس درخت کی طرف گیا، یہ دیکھو۔” فیونا نے اینٹوں کی دیوار کے قریب جا کر ایک سوراخ کی طرف اشارہ کیا۔ "یہاں سے ہم رسی باہر پہنچا کر اُس درخت کے تنے سے باندھ دیں گے اور پھر اس کے ذریعے اینٹ کھینچ کر نکال لیں گے۔”

دانیال نے جلدی سے رسی زمین پر رکھ دی اور اس کا ایک سرا فیونا کو تھما دیا۔ رسی کا دوسرا سرا لے کر وہ فرش پر پتھروں کے ڈھیر پر چڑھا اور پھر درخت کی طرف چلا گیا۔ درخت کے گرد چکر لگا کر وہ واپس فیونا کے پاس آیا۔ فیونا نے رسی کا وہ سرا جو اس کے ہاتھ میں تھا، لے کر مطلوبہ اینٹ کے ساتھ ایک سوراخ میں ڈالا۔ ذرا سی کوشش سے رسی کا سرا اندر چلا گیا۔ پھر وہ دوڑ کر باہر گئی اور رسی کا سرا کھینچ کر اسے اینٹ کی دوسری طرف بنے سوراخ میں ڈال دیا، جسے دوسری طرف موجود دانیال نے اندر کھینچ لیا۔ فیونا پھر اندر آئی اور اب دونوں سرے دانیال کے ہاتھوں میں تھے اور رسی مطلوبہ اینٹ کے گرد حمائل ہو چکی تھی۔

"اب کیا کریں؟” دانیال نے پوچھا۔

"بتاتی ہوں۔” فیونا بولی اور اس کے ہاتھ سے ایک سرا لے کر اسے قریب ایک ستون سے باندھ دیا۔ "اب تم دونوں باہر جا کر درخت کے پاس کھڑے ہو جاؤ۔ میں جیسے ہی آواز دوں تو تم دونوں پوری قوت کے ساتھ رسی کھینچنا شروع کرو۔”

دانیال دوسرا سرا لے کر جبران کے ہمراہ باہر جا کر درخت کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ فیونا نے دوڑ کر ایک اور اینٹ اٹھا لی اور دیوار میں لگی مطلوبہ اینٹ کے پاس کھڑی ہو گئی۔

"رسی کھینچ لو۔” فیونا نے چند لمحے توقف کیا اور پھر چیخ کر بولی۔

دونوں نے پوری طاقت کے ساتھ رسی کھینچی۔ اینٹ میں تھوڑی سی حرکت ہوئی اور اس کا ایک ٹکڑا ٹوٹ کر نیچے گر گیا، اس کے ساتھ ہی دھول کا ایک چھوٹا سا مرغولہ اٹھ کر فضا میں منتشر ہو گیا۔

(جاری ہے……)

Comments

اہم ترین

رفیع اللہ میاں
رفیع اللہ میاں
رفیع اللہ میاں گزشتہ 20 برسوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں، ان دنوں اے آر وائی نیوز سے بہ طور سینئر صحافی منسلک ہیں۔

مزید خبریں