نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہاں‌ کلک کریں
تھوڑی دیر بعد وہ آکٹوپس، جو اس کی تلاش میں تھا، کے سر پر نمودار ہو گئی۔ اس نے سیپی کا نوکیلا سرا آکٹوپس کی آنکھ میں گھسیڑ دیا۔ آکٹوپس نے درد سے مچل کر ایک ٹانگ اسے پکڑنے کے لیے لہرائی لیکن وہ پھرتی کے ساتھ اچھل کر دوسری آنکھ کے قریب پہنچی اور سیپی کا سرا دوسری آنکھ میں بھی گھونپ دیا۔ آکٹوپس نے تکلیف کے مارے چیخ ماری اور آٹھوں ٹانگیں سر کی طرف لے گیا۔
جبران خوشی سے چلایا: ’’واؤ، فیونا نے اسے اندھا کر دیا ہے، ارے وہ دیکھو، ابھی وہ ایک بار پھر بڑی ہو رہی ہے۔‘‘ دانیال بھی خوشی سے چلانے لگا۔ انھوں نے دیکھا کہ فیونا کے ساتھ ساتھ سیپی بھی بڑی ہونے لگی اور ایک خطرناک ہتھیار کا روپ دھار گئی۔ فیونا نے بڑے ہونے کے بعد سیپی کا نوکیلا سرا آکٹوپس کی کھوپڑی میں دے مارا۔ سر پر یہ وار مہلک ثابت ہوا اور آکٹوپس کی اٹھی ہوئی ٹانگیں یک لخت گر کر پانی میں ڈوب گئیں۔ ذرا دیر بعد آکٹوپس ایک ڈھیر کی طرح پانی کی سطح پر دو پتھروں کے درمیان ادھر ادھر ڈول رہا تھا۔ فیونا اپنے نارمل قد میں آئی اور پتھر پر چڑھ کر بیٹھ گئی۔ ’’تم نے اسے بہادری سے مار دیا ہے فیونا۔‘‘ جبران نے اس کی تعریف کی۔
’’اگر میں نہ مارتی تو یہ ہم تینوں کو مار دیتا، اور کوئی چارہ نہ تھا۔‘‘ فیونا نے کھوئے کھوئے لہجے میں کہا۔ زندگی میں پہلی بار اس کے ہاتھوں کسی جان دار کا اس طرح قتل ہوا تھا، اس لیے وہ نہ خوشی محسوس کر رہی تھی نہ دکھ۔ دانیال نے توجہ دلائی کہ اس کے کپڑوں پر بے تحاشا گندگی پھیل گئی ہے۔ فیونا کے کپڑوں پر سے سرخ رنگ کا لیس دار مادہ پھسل پھسل کر گر رہا تھا، جس سے عجیب سی سڑاند اٹھ رہی تھی۔ دانیال نے اچانک کہا ’’دیکھو پانی کتنا اونچا ہو چکا ہے، غار آدھا بھر گیا ہے۔ ہمیں جلد از جلد صدفہ اٹھا کر لانا ہے اور اسے باہر نکل کر ہی توڑیں گے۔‘‘
فیونا بھی چونک اٹھی، اس نے جبران سے کہا کہ اب اسے مزید گہرائی میں جانا ہوگا، لہریں اونچی ہوتی جا رہی تھیں۔ جبران پانی میں کود گیا اور وہ دونوں اس کی واپسی کا انتظار کرنے لگے۔ ذرا ہی دیر بعد وہ نمودار ہوا، اس کے ہاتھ میں وہی صدفہ تھا۔ دونوں کے چہروں پر خوشی کی کیفیت طاری ہو گئی۔ فیونا بولی: ’’واؤ، یہ تو خاصا بڑا ہے، میرے خیال میں دو مونہے صدفے میں موتی کی جسامت بڑھتی رہتی ہے۔‘‘
دانیال نے مدد کر کے جبران کو پتھر پر چڑھایا، اور اسی لمحے ایک بہت بڑی لہر غار کے اندر داخل ہوئی اور اس سے پہلے کہ وہ سنبھلتے، تینوں اس کی زد میں آ گئے۔ وہ پتھر سے پانی میں گر گئے لیکن گرتے گرتے فیونا چلائی: ’’جبران تم اس صدفے کو گرنے مت دینا۔‘‘
لہر غار سے ٹکرا کر واپس چلی گئی تو تینوں پھر پتھر پر چڑھے۔ جبران نے صدفہ مضبوطی سے ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا، اسے دیکھ کر فیونا اور دانیال کی آنکھوں میں اطمینان کی لہر دوڑ گئی۔ دانیال بولا: ’’ہمیں جلد از جلد اس غار سے نکلنا ہوگا، ورنہ اگر اسی طرح لہریں آتی رہیں گی تو ہم یہیں مر جائیں گے۔‘‘
وہ تینوں غار کے دہانے کی طرف بڑھنے لگے، فیونا نے انھیں خبردار کیا کہ لہریں بے حد خطرناک معلوم ہوتی ہیں، اور پتھروں سے پٹک پٹک کر انھیں جان سے مار سکتی ہیں۔ تینوں پانی میں اتر کر تیر رہے تھے، ابھی وہ دہانے کے قریب ہی پہنچے تھے کہ ایک اور بڑی لہر آئی اور انھیں اپنے ساتھ اندر دھکیل گئی۔ انھیں لگا جیسے پتھروں پر دھوبی کی طرح لہروں نے انھیں پٹکا ہو۔ لہر واپس چلی گئی تو تینوں پانی سے سر نکال کر سانس لینے لگے، انھیں لگا کہ یہاں سے نکلنا بہت مشکل ہے۔ دانیال نے کہا: ’’مجھے یقین ہو گیا ہے کہ یہی دوسرا پھندا ہے۔ دیکھو پانی اور غار کی چھت میں محض دو تین فٹ کا فاصلہ ہی رہ گیا ہے، اور ہم ڈوب کر مر جائیں گے۔‘‘
اسے لمحے ایک اور بڑی لہر اندر داخل ہو گئی۔
(جاری ہے….)

Comments