نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
فیونا چیخ کر بولی: ’’اندر غوطہ لگاؤ، لہر کی واپسی تک پانی کے اندر ہی رہو۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے غوطہ لگا لیا۔ ذرا دیر بعد وہ سطح پر ابھرے اور سانس لینے لگے۔
دانیال بولا: ’’مجھے غار کا دہانہ اب نظر نہیں آ رہا ہے۔ غار پانی سے مکمل طور پر بھر چکا ہے، اب تو ہمیں پانی کے اندر ہی اندر تیر کر باہر نکلنا ہے۔‘‘ جبران نے پریشان ہو کر پوچھا: ’’اور اس صدفے کا کیا کروں، میں تو اس کے ساتھ تیر نہیں سکتا۔‘‘
’’یہ مجھے دے دو۔‘‘ فیونا نے کہا۔ ’’میں خود کو پھر بڑا کرنے والی ہوں، تم دونوں میری شرٹ مضبوطی سے پکڑ لینا۔ وہ دیکھو ایک اور لہر آ رہی ہے، جب یہ واپس ہونے لگے تو ہمیں بھی اس کے ساتھ ہی باہر نکلنا ہے … سنبھل جاؤ اب!‘‘
فیونا نے جیسے ہی جملہ پورا کیا، لہر نے انھیں اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ دونوں نے لمبی سانس لی اور فیونا کی شرٹ پکڑ لی۔ انھیں محسوس ہوا کہ فیونا کا قد تیزی کے ساتھ بڑا ہونے لگا ہے۔ لہر واپس ہونے لگی تو فیونا بھی ان دونوں کو ساتھ لے کر دہانے کی طرف تیرنے لگی۔ دہانے پر پہنچ کر دونوں کو اچانک ایسا لگا کہ انھیں پھر کسی عظیم الجثہ آکٹوپس نے گھیر لیا ہے۔ جبران چیخا: ’’فیونا، لہر آ رہی ہے اور یہ تو بہت ہی بڑی ہے۔‘‘
’’گھبراؤ نہیں۔‘‘ فیونا نے اطمینان سے کہا: ’’اب ہم غار سے نکل آئے ہیں اور میں خود کو جتنا چاہوں بڑا کر سکتی ہوں۔‘‘ دونوں نے دیکھا کہ فیونا کی ٹانگ آکٹوپس کی ٹانگ سے بھی بڑی ہو گئی ہے۔ اس نے اطمینان سے چند ہی قدم اٹھائے اور وہ ساحل پر پہنچ گئے۔ جب وہ لہروں کی پہنچ سے دور ہو گئے تو فیونا نے دونوں کو نیچے اتارا اور اپنی عام جسامت میں آ گئی۔
’’اوہ فیونا، تم تو کسی وھیل جتنی بڑی ہو گئی تھی۔‘‘ جبران نے ریت پر اترتے ہی حیرت کا اظہار کیا۔ انھوں نے مڑ کر غار کی طرف دیکھا لیکن اب وہاں پانی ہی پانی تھا، غار پانی کے اندر مکمل طور پر ڈوب چکا تھا۔
’’ٹھیک ہے فیونا۔‘‘ جبران کہنے لگا: ’’اب اس صدفے کو توڑو اور اس میں سے موتی نکال لو، تاکہ ہم یہاں سے جلد از جلد روانہ ہو سکیں، ہمیں جیکس کو بھی ڈھونڈنا ہے۔‘‘