نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے
ڈریٹن کی آنکھیں کھلیں تو اسے شدید تکلیف کا احساس ہونے لگا۔ اس نے زندگی میں کبھی غسل آفتابی نہیں کیا تھا، سر سے پیر تک اس کی جلد میں جلن اور دکھن ہو رہی تھی۔ وہ رو پڑا: ’’اوہ … بہت تکلیف ہو رہی ہے!‘‘
قریب سے ایک ادھیڑ عمر کا شخص چھتری تھامے گزرا، اس نے ڈریٹن کو تکلیف میں دیکھ کر مشورہ دیا: ’’بیٹا، تم نے سورج کی کرنوں سے خود کو نادانی میں بری طرح جلا دیا ہے، جاؤ اور ایلوویرا نامی پودے کا عرق اپنے جسم پر ملو، اس سے تمھیں درد سے نجات مل جائے گی۔‘‘
ڈریٹن بجائے شکریہ ادا کرنے کے، اس ادھیڑ عمر شخص سے بدتمیزی کرنے لگا۔ ’’اوئے بڈھے، کیا میں نے تم سے مشورہ مانگا ہے، اپنا کام کرو، چل نکل یہاں سے۔ میں کوئی بے وقوف ہوں، پتا ہے مجھے کہ خود کو سورج کی تیز روشنی سے جلا چکا ہوں۔‘‘ ادھیڑ عمر شخص نے برا سا منھ بنا کر کہا: ’’آج رات تمھیں اس کا اصل مزا آئے گا، اور میں اس کا سوچ کر ہی ابھی سے لطف لے رہا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گیا اور ڈریٹن نے غصے سے اپنا تولیہ جھٹکے سے اٹھا لیا، جس کے ساتھ ریت بھی اڑی، جو آس پاس بیٹھے ہوئے لوگوں پر جا گری۔ ایک بچہ روتے ہوئے بولا: ’’ممی، اس احمق آدمی نے میرے سینڈوچ پر ریت جھاڑ دی ہے۔‘‘
ڈریٹن نے نہایت بدتمیزی سے قریب آ کر بچے کا خالی ٹفن باکس اٹھا کر اس میں ریت بھری اور اسے بچے کے بالوں میں الٹ دیا۔ خالی باکس دوبارہ بھر کر پکنک پر آئی ہوئی فیملی کے کھانے پینے کے سامان سے بھری ٹوکری میں الٹ دیا اور بچے کی ممی سے بولا: ’’اپنے اس چوزے کو سمجھاؤ کہ چوں چوں بند کرے، نہیں تو ابھی اس کا کچومر نکال دوں گا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے ٹفن سمندر میں اچھال دیا، اور پھر ہوٹل کی طرف چل دیا۔
کچھ ہی فاصلے پر کاسمیٹک کی ایک دکان نظر آئی تو اس میں داخل ہوا، اس پر لکھا تھا ’’سن اینڈ فن۔‘‘اس کے بدن پر اب بھی ریت چپکی ہوئی تھی جو دکان کے اندر بھی گر رہی تھی۔ سیلز مین کو یہ دیکھ کر بہت برا لگا، اس نے آگے بڑھ کر نہایت مؤدب لہجے میں کہا: ’’سر، براہ مہربانی آپ باہر جا کر اپنے جسم سے ریت جھاڑ کر آئیں، ہم آپ کو خوش آمدید کہیں گے۔‘‘
ڈریٹن نے چونک کر اس کی طرف دیکھا: ’’ارے تم اتنے مزاحیہ لہجے میں کیوں بول رہے ہو، کیا تم احمق ہو؟‘‘
سیلز مین نے دیگر کسٹمرز کی موجودگی میں اپنی بے عزتی محسوس کی اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں جواب دیا: ’’آپ کو میرے لہجے میں کیا سروکار ہے؟ آپ باہر جائیں اس سے پہلے کہ میں پولیس کو طلب کروں۔‘‘
ڈریٹن نے مسکرا کر زبردست جھرجھری لی اور تمام ریت دکان کے اندر ہی جھاڑ دی، اور پھر اطمینان سے دکان سے نکل کر ایک بار پھر سمندر کی طرف چل پڑا۔ اس نے دیکھا کہ بچے نے اپنا ٹفن اٹھا لیا تھا۔ ڈریٹن نے اس کے ہاتھ سے ٹفن چھینا اور اس میں پھر ریت بھر دی۔ بچے کی ماں نے جلدی سے بچے کو ایک طرف اپنی آڑ میں چھپا لیا۔ ڈریٹن مڑا اور دکان کے اندر چلا گیا۔ اس نے ہاتھ پیچھے رکھے تھے، سیلز مین اسے دیکھ کر تیزی سے آگے بڑھا اور بولا: ’’آپ پھر آ گئے اندر، فوراً باہر نکل جائیں۔‘‘
دیگر کسٹمرز اسے دیکھ کر تیزی سے باہر نکلے۔ انھیں ڈر لگا تھا کہ کہیں یہ بد مست بھینسا انھیں نشانہ نہ بنا دے۔ ڈریٹن نے سیلز مین سے کہا: ’’ٹھیک ہے چلا جاتا ہوں لیکن پہلے آپ یہ بتا دیں کہ آپ کا لہجہ کس قسم کا ہے؟‘‘
سیلز مین نے ایک لمحہ ٹھہر کر نرمی سے جواب دیا: ’’یہ کرول لہجہ ہے، میرے ورثے کا ایک حصّہ!‘‘
’’اوہ…‘‘ ڈریٹن نے مذاق اڑانے والے لہجے میں کہا اور اسے دھکا دیتے ہوئے اسی کے لہجے میں نقل اتاری: ’’تو ورثے کی زبان میں بات ہو رہی ہے۔‘‘
سیلز مین اس کے دھکے سے لڑکھڑا گیا تھا، اور سنبھلنے سے پہلے ہی ڈریٹن نے اس کے سَر پر ریت ڈال دی۔ جس سے اس کے بال، کپڑے اور فرش گندا ہو گیا۔ یہ دیکھ کر وہ مسکراتے ہوئے دروازہ کھول کر باہر چلا گیا۔ ہوٹل کی طرف جاتے ہوئے اس دوسری دکان نظر آ گئی، وہ اندر داخل ہوا اور ریک سے ایلوویرا جل، لوشن اور سن اسکرین اٹھا کر تولیے میں لپیٹ لیے۔ سیلز مین کسی دوسرے کسٹمر کے ساتھ مصروف تھا اس لیے وہ اطمینان کے ساتھ باہر نکل گیا، اس کے بعد وہ ہوٹل پہنچ کر نہایا۔ نہانے کے بعد اس نے سوچا کہ شاید ان چالاک بچّوں نے اب تک موتی حاصل کر لیا ہو گا، لیکن کیا میں ان کو کہیں ڈھونڈوں یا واپس گیل ٹے چلا جاؤں۔ وہ سوچنے لگا کہ اسے جانا چاہیے، وہ خاصا دولت مند ہو کر لوٹ رہا تھا۔ جانے کا فیصلہ کر کے اس نے ہوٹل کے کمرے میں موجود ہر قیمتی شے کو پکڑا اور واپسی کا منتر پڑھنے لگا۔
جب گھومنا بند ہو گیا تو اس نے خود کو اینگس کے گھر کے باہر پایا، بارش ہو رہی تھی، ذرا ہی دیر میں وہ بھیگ گیا۔ سورج کی تیز روشنی سے اس کی جلد دکھ رہی تھی اور بارش کے پانی سے اس کی تکلیف مزید بڑھ گئی۔ اس نے اپنے کپڑے سیچلز ہی میں چھوڑے تھے اور شارٹس، جوتوں اور ایک ٹی شرٹ میں چلا آیا تھا، اس لیے وہ تیز رفتاری کے ساتھ بی اینڈ بی کی طرف دوڑنے لگا۔ وہ آندھی اور طوفان کی طرح دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا اور ایلسے اس کے ساتھ ٹکراتے ٹکراتے بچی۔ وہ اس کی پروا نہ کرتے ہوئے سیڑھیاں چڑھ کر اپنے کمرے میں داخل ہوا اور ایک دھماکے سے درازہ بند کر دیا۔ ایلسے نے حیرت سے کہا تھا: ’’ارے ڈریٹن، تم تو جلے ہوئے پورے!‘‘
(جاری ہے…)

Comments