ہفتہ, مئی 11, 2024
اشتہار

اڑتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

اشتہار

حیرت انگیز

نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

’’اُف جبران، ایسا مت کہو، مجھے نہیں لگتا کہ یہ برے لوگ ہیں۔‘‘ فیونا نے پریشان ہو کر کہا۔ ’’مم… میں وضاحت نہیں کر پا رہی ہوں لیکن مجھ لگتا ہے کہ یہ اس معاملے جڑے ہوئے ہیں۔‘‘

- Advertisement -

’’کس معاملے سے؟‘‘ جبران حیران ہو گیا۔

’’جادوئی گیند، قلعے اور قیمتی پتھروں کے معاملے سے، تمھارا کیا خیال ہے اس بارے میں؟‘‘

’’مجھے ایسا نہیں لگتا، ہاں کوئی غیر معمولی بات ضرور محسوس ہوتی ہے۔‘‘ جبران نے کہا اور آنکھیں ملنے لگا۔ ’’آج تو میں بہت تھک گیا ہوں۔ سارا دن کام میں لگا رہا۔ میں پاپا اور مہمانوں کے ساتھ مچھلیاں پکڑنے چلا گیا تھا۔‘‘

’’واہ، تو تم نے آج خوب تفریح کی۔‘‘ فیونا نے ہنس کر کہا۔ اچانک مائری کی آواز آئی: ’’فیونا کیا تم جانے کے لیے تیار ہو؟‘‘

’’اچھا میں جا رہی ہوں، ویسے تمھیں بتادوں کہ انکل اینگس کل صبح کریان لارچ جا رہے ہیں، تجارت کے سلسلے میں، وہ وہاں شو کریں گے۔‘‘

’’کیسا شو؟‘‘ جبران نے پوچھا۔ فیونا نے بتایا کہ وہ برطانیہ میں گھوم پھر کر اپنی دست کاری کے فن پارے فروخت کرتے ہیں۔ ان کی واپسی پیر کے دوپہر کو ہوگی۔ اور جب تک وہ واپس نہیں آئیں گے تب تک وہ کسی اور مہم پر بھی نہیں جائیں گے۔

’’ٹھیک ہے میں بھی اطمینان سے سو جاتا ہوں۔‘‘ جبران نے جماہی لی۔

مائری اور فیونا رخصت ہو گئیں۔ جونی اور جمی بھی ان کے ساتھ ہو لیے۔ جونی نے چلتے چلتے کہا یہاں اندھیرا کچھ جلدی نہیں اترا ہے! مائری نے آسمان کی طرف دیکھ کر جواب دیا، جہاں اندھیرے نے پر پھیلا دیے تھے: ’’یہ خزاں کا موسم ہے اور ہم اسکاٹ لینڈ کے ہائی لینڈز میں ہیں۔‘‘

اچانک فیونا نے جونی کو مخاطب کیا: ’’آپ کیوں ٹی وی دیکھنا نہیں چاہتے؟ جبران نے بتایا تھا کہ آپ نے اس سے پہلے ٹی وی کبھی نہیں دیکھا!‘‘

ایک بار پھر دونوں بھائیوں نے ایک دوسرے کو آنکھوں ہی آنکھوں میں دیکھا۔ پھر جونی نے جواب دیا: ’’دراصل ہمارے والدین نے ہمیں بچپن ہی سے سکھا دیا تھا کہ وقت کا بہترین استعمال یہی ہے کہ ہم کتابیں پڑھیں یا کہانیاں لکھیں، یا پھر دور دراز مقامات کی سیر کیا کریں۔ اس لیے ہم نے کبھی ٹی وی دیکھا ہی نہیں، نہ ہمیں اس کا کوئی شوق ہے۔‘‘

’’اوہ، پھر تو ٹھیک ہے۔‘‘ فیونا دل چسپی سے بولی۔ ’’مجھے بھی مطالعہ اور کہانیاں لکھنا پسند ہے۔ تو آپ لوگ کماتے کیسے ہیں؟‘‘ اس سے پہلے کہ جونی جواب میں کچھ کہتا، اس کی ممی مائری نے فوراً مداخلت کر کے فیونا کو ٹوک دیا: ’’ایسی باتیں مت پوچھو، ان باتوں سے تمھارا کیا لینا دینا۔‘‘ لیکن جونی نے جواب میں کہا کہ یہ درست ہے کہ جمی زیادہ تر وقت سیر سپاٹے میں گزارتا ہے اور میں لکھنے میں۔ فیونا نے پوچھا کہ کیا وہ کوئی کتاب بھی لکھ چکے ہیں۔

جونی نے جواب دیا: ’’ہاں بہت پہلے ایک کتاب لکھی تھی میں نے۔‘‘

فیونا نے اس کے بعد کوئی اور سوال نہیں کیا، اس لیے باقی کا راستہ خاموشی سے طے ہوا۔ گھر کے دروازے پر پہنچ کر مائری نے ہینڈل گھما کر دروازہ کھولا تو جمی نے چونک کر کہا: ’’آپ نے دروازے کو تالا نہیں لگایا تھا؟‘‘

’’نہیں… ہمیں اس کی ضرورت نہیں پڑتی۔ گیل ٹے بہت پُر امن جگہ ہے، یہاں کوئی خطرہ نہیں۔‘‘ مائری نے پورے یقین کے ساتھ جواب دیا۔

’’لیکن ممی ہمیں دروازے کو تالا لگانا چاہیے، کیوں کہ ان دنوں یہاں باہر سے اجنبی سیاح آتے ہیں۔‘‘ فیونا بولی اور پھر جلدی سے جونی کی طرف مڑ کر معذرت کرنے لگی۔ ’’آپ برا نہ منائیں، میرا مطلب اجنبی سیاحوں سے ہے۔‘‘

’’تم درست کہہ رہی ہو فیونا، یہ اچھا آئیڈیا ہے، اب کے بعد دروازے کو ضرور تالا لگایا کریں مائری۔‘‘ جونی نے بھی کہا اور مڑ کر بولا: ’’مجھے امید ہے کہ جلد دوبارہ ملاقات ہوگی۔‘‘

دونوں جبران کے گھر کی طرف چل پڑے، اور مائری نے دروازہ بند کر لیا۔ فیونا اپنے کمرے کی طرف بڑھتے ہوئے بولی: ’’ممی، جبران کے پاپا بلال صاحب کی فیملی کے بعد کیا یہ دونوں بھائی بھی ہمارے خاندان کے قریب آ رہے ہیں، کیا ہمیں ان کے ساتھ کوئی رشتہ قائم کرنا چاہیے؟‘‘

’’ابھی ہم ایک دوسرے کے بارے میں کچھ نہیں جانتے، اس لیے میں کچھ نہیں کہہ سکتی۔‘‘ مائری نے جواب دیا: ’’اب تم چلو، گڈ نائٹ!‘‘

(جاری ہے….)

Comments

اہم ترین

رفیع اللہ میاں
رفیع اللہ میاں
رفیع اللہ میاں گزشتہ 20 برسوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں، ان دنوں اے آر وائی نیوز سے بہ طور سینئر صحافی منسلک ہیں۔

مزید خبریں