تازہ ترین

سیشن جج وزیرستان کو اغوا کر لیا گیا

ڈی آئی خان: سیشن جج وزیرستان شاکر اللہ مروت...

سولر بجلی پر فکسڈ ٹیکس کی خبریں، پاور ڈویژن کا بڑا بیان سامنے آ گیا

اسلام آباد: پاور ڈویژن نے سولر بجلی پر فکسڈ...

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

اداکارہ راگنی کا تذکرہ جنھیں‌ ‘آہو چشم’ کہا جاتا تھا!

27 فروری 2007ء کو آہو چشم راگنی کی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہوگئیں۔ آج پاکستان فلم انڈسٹری کی اس کام یاب اداکارہ کی برسی ہے۔

فیض صاحب کی نظم کا ایک مشہور مصرع ہے؎

تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے

شاید اس دور میں راگنی کو دیکھنے کے بعد اکثر لوگوں کو یہی خیال آتا ہو گا۔ بڑی بڑی آنکھوں والی اس لڑکی کو بڑی اسکرین پر اداکارہ کے طور پر متعارف کرانے والے ہدایت کار کا نام روپ۔ کے۔ شوری تھا جو معروف فلم ساز اور ہدایت کار روشن لال شوری کے صاحب زادے تھے۔ انھوں نے اپنی مشہور پنجابی فلم دُلا بھٹی میں راگنی کو مرکزی کردار دیا تھا اور 1941ء میں وہ اسی فلم کے بعد آہو چشم مشہور ہوئی تھیں۔

فلم دُلا بھٹی کے لیے سنیماؤں کی عمارتوں جو تشہیری بورڈ اور چاکنگ کی گئی تھی، اس میں‌ نشیلی آنکھوں والی نئی ہیروئن کی تصویر نے شائقینِ سنیما کو اپنی جانب متوجہ کرلیا تھا جب کہ فلم کے 17 گیتوں میں سے متعدد فلم کی ریلیز سے پہلے ہی مقبول ہوچکے تھے۔

پاکستان کی اس مشہور فلمی اداکارہ کا اصل نام شمشاد بیگم تھا۔ وہ 1923ء میں گوجرانوالہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ راگنی کا خاندان بعد میں مشہور ہدایت کار کے ہمسائے میں جا بسا جہاں جوہر شناس مسٹر شوری نے شمشاد بیگم کو دیکھا تو دل میں‌ ارادہ کیا اور ان کے والد سے اسکرین ٹیسٹ کی اجازت مانگی۔ جیسے اُن کے ہاں کرنے کی دیر تھی اور وہ ’راگنی‘ کے نام سے فلم دُلا بھٹی میں کاسٹ کر لی گئیں۔ اس فلم کے ہیرو لاہور کے ایک شوقین مزاج اور وجیہ صورت امیر زادے ایم۔ ڈی۔ کنور تھے جنھیں فلم میں راگنی کے ساتھ بہت پذیرائی ملی۔

دُلا بھٹی کی کام یابی کے بعد کئی فلم سازوں نے راگنی کو کاسٹ کرنا چاہا لیکن اپنے والد کے مشورے سے راگنی نے فلم ’ہمت‘ میں کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس فلم کے ہدایت کار بھی روپ۔ کے۔ شوری تھے۔ یہ فلم بھی زبردست ثابت ہوئی اور راگنی کو بہت سراہا گیا، اس کے بعد اداکارہ نے فلم ’سہتی مُراد‘ میں مرکزی کردار ادا کیا جو دراصل پنجاب کی لوک کتھا پر مبنی کہانی تھی۔ اس میں‌ راگنی پر فلمایا ہوا شمشاد بیگم کی آواز میں ایک گیت انتہائی مقبول ہوا تھا۔ خوب صورت آنکھوں والی اداکارہ راگنی نے 1941ء ہی میں تیسری کام یاب فلم ’میرا ماہی‘ دی اور پھر انھیں بمبئی جانے اور فلموں میں کام کی آفر ہوئی۔ لیکن انھوں نے لاہور چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ یہاں لاہور میں فلمی دنیا میں‌ راگنی نے پونجی، پٹواری، داسی، من مانی، دھمکی، کیسے کہوں اور بِندیا جیسی فلموں میں کام کیا جو بہت کام یاب ثابت ہوئیں۔

1946ء میں راگنی کو فرض نامی فلم میں‌ ایک نئے ہیرو کے ساتھ کاسٹ کیا گیا۔ یہ اداکار سدھیر تھے جنھیں‌ بعد میں بے انتہا مقبولیت اور پذیرائی ملی اور وہ پاکستانی فلموں کے جنگجو ہیرو کہلائے۔ بعد میں راگنی نے بمبئی میں بھاری معاوضے پر فلم شاہ جہان سائن کی جس کے ہدایت کار اے۔ آر کاردار تھے۔ راگنی کے حسن و جمال، سہگل کی آواز اور نوشاد کی موسیقی میں اس فلم نے مقبولیت کی بلندیوں کو چھوا اور ہر جانب فلم شاہ جہان کا ڈنکا بجنے لگا۔

اس فلم کا معاوضہ راگنی نے اس زمانے میں پچاس ہزار لیا تھا جب اتنی رقم میں پوری فلم پروڈیوس ہوجاتی تھی۔ یہ وہ فلم تھی جس نے راگنی کو پنجاب سے نکال کر ہندوستانی فلم انڈسٹری کے بڑے مراکز کلکتہ اور بمبئی کے ذریعہ ملک بھر میں‌ شہرت دی تھی اور جب ہدایت کار اے۔ آر۔ کاردار نے اگلی فلم کے لیے راگنی سے رابطہ کیا تو اداکارہ نے ایک لاکھ روپے طلب کیے۔ یوں پہلی ہی فلم متحدہ ہندوستان میں اداکارہ کی آخری فلم ثابت ہوئی لیکن قیامِ پاکستان کے بعد وہ گمنام، مندری، بے قرار، کندن، غلام، شرارے، نوکر، انارکلی، زنجیر، صاعقہ اور نائلہ جیسی کام یاب پاکستانی فلموں میں نظر آئیں‌۔ پاکستان میں اُن کی یادگار فلم انارکلی ہے جس میں انھوں نے دِل آرام کا کردار ادا کیا تھا۔ راگنی نے اپنے فنِ اداکاری سے اس کردار کو لافانی بنا دیا اور شائقین کا دل جیت لیا۔

مشہور ہے کہ وہ ایک صاف گو خاتون تھیں اور ان کے کھرے اور بے باک لہجے نے کئی لوگوں کو ان سے بددل بھی کردیا تھا۔ انھیں اکثر لوگ متکبر اور گھمنڈی سمجھنے لگے تھے۔ انھوں نے دو شادیاں‌ کی تھیں۔ وقت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ دہائیوں قبل دیگر ہیروئنوں کی نسبت کئی گنا زیادہ معاوضہ لینے والی وہ اداکارہ جس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے کئی لوگ جمع ہو جایا کرتے تھے، اس نے آخری ایّام میں پریشانی دیکھی اور تنہائی کا شکار رہی۔ یہ بھی قابلِ ذکر بات ہے کہ تقسیم سے پہلے وہ ہیروئن کے روپ میں‌ خاصی کام یاب رہیں، لیکن پاکستان میں‌ انھیں‌ زیادہ تر کیریکٹر رول میں ہی پسند کیا گیا اور بطور ہیروئن وہ آگے نہ آسکیں۔

متحدہ ہندوستان کی یہ معروف فلمی ہیروئن جنھوں نے پاکستان میں ابتدائی فلموں میں کریکٹر رول ادا کرکے شائقین کی توجہ حاصل کی تھی، لاہور کے ایک اسپتال میں وفات پائی۔ بدقسمتی سے ان کی زندگی کے آخری ایّام لاہور کے محلّے میں معمولی گھر میں گزرے، وہ اپنی اولاد پر بوجھ بننے کے بجائے الگ رہنے لگی تھیں۔

Comments

- Advertisement -