بدھ, نومبر 13, 2024
اشتہار

راجندر سنگھ بیدی: قلم کا دھنی، ایک عاشق مزاج

اشتہار

حیرت انگیز

راجندر سنگھ بیدی کی تحریریں اپنے ہم عصروں کے مقابلے میں زیادہ گمبھیر، تہ دار اور پُرمعنی ہیں۔ یہ وہ کہانیاں ہیں جنھیں ہم آئینہ خانہ کہیں‌ تو غلط نہیں کہ جس میں انسان کا اصل روپ ظاہر ہوتا ہے۔ فرد اور پیچیدہ رشتوں کے ساتھ وہ شخصیت کو اس خوبی سے پیش کرتے ہیں جسے احساس کی بلندی پر پہنچ کر ہی سامنے لایا جاسکتا ہے۔بیدی کے ہاں استعارہ اور اساطیری تصوّرات بہت اہمیت رکھتے ہیں۔

بیدی 1915ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ زندگی کا ابتدائی عرصہ لاہور میں گزرا اور وہیں تعلیم حاصل کی۔ ایک محکمہ میں کلرک بھرتی ہوئے اور ملازمت کے ساتھ ادبی سفر بھی رکھا۔ ان کی ادبی زندگی کا آغاز 1932ء میں ہوا۔ مشہور ہے کہ وہ محسن لاہوری کے نام سے انگریزی اور اردو میں نظمیں اور کہانیاں تخلیق کرنے لگے جنھیں کالج میگزین اور مقامی اخبارات میں جگہ ملی۔ بعد میں یہ سفر اپنے اصل نام سے جاری رکھا اور ان کے افسانوں کے مجموعے، مضامین اور خاکے بھی شایع ہوئے۔ راجندر سنگھ بیدی کو اپنے عہد کا بڑا اور صاحبِ طرز ادیب تسلیم کیا گیا۔ انھوں نے طنزو مزاح بھی لکھا۔

بیدی نے تقریباً ستّر فلموں کے مکالمے لکھے۔ ان میں بڑی بہن، داغ، مرزا غالب، دیو داس، ستیہ کام اور ابھیمان کے مکالمے اپنی ادبیت اور کردار و ماحول شناسی کی بنا پر سراہے گئے۔ بیدی نے فلم سازی میں بھی خود کو آزمایا اور گرم کوٹ، رنگولی، بھاگن اور آنکھیں نامی فلمیں بنائیں۔ ان کی کاوش دستک کو اعلیٰ فنی خوبیوں کی بنا پر 1970ء میں قومی ایوارڈ بھی دیا گیا۔ راجندر سنگھ بیدی کی کہانیوں میں متوسط طبقے کے متنوع کرداروں اور ماحول کے ساتھ انسانی رشتوں کے اتار چڑھاؤ سے پیدا ہونے والے مسائل پڑھنے کو ملتے ہیں۔ متوسط اور نچلے متوسط طبقے کی ہندوستانی عورت اور مرد کے کردار ان کے افسانوں میں نمایاں ہیں۔ انھوں نے اپنی پہلی مختصر کہانی، مہارانی کا تحفہ پر لاہور کے ادبی جریدے کی جانب سے سال کی بہترین مختصر کہانی کا انعام بھی حاصل کیا تھا۔ ان کی مختصر کہانیوں کا پہلا مجموعہ 1940ء میں منظرِ عام پر آیا اور دوسرا مجموعہ 1943ء میں شائع ہوا۔ بیدی کا مشہور اردو ناول ایک چادر میلی سی کا انگریزی ترجمہ بھی کیا گیا جس پر انھیں ساہتیا اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

- Advertisement -

بیدی نے مختلف جرائد کے لیے لکھا، ادارت کی، اور ریڈیو کے لیے ڈرامے یا اسکرپٹ تحریر کیے، جب کہ 1946ء میں اپنا پبلشنگ ہاؤس قائم کرنے میں کام یاب ہوگئے، لیکن بٹوارے کے بعد 1947ء میں انھیں لاہور چھوڑنا پڑا۔

افسانہ نگار بیدی عاشق مزاج بھی تھے اور اسی سبب ان کی ازدواجی زندگی بھی متاثر رہی۔ رومانس اور دل لگی نے ان کی گھریلو زندگی میں تلخیوں‌ کا زہر گھول دیا تھا۔ اس نام وَر افسانہ نگار کی زندگی کے آخری ایّام کس مپرسی اور بے بسی کے عالم میں‌ بسر ہوئے۔ بیدی پر فالج کا حملہ اور بعد میں کینسر تشخیص ہوا اور 11 نومبر 1984ء کو وہ چل بسے۔

بیدی کے والدین کا تعلق سیالکوٹ سے تھا جہاں ان کا آبائی گھر تھا۔ والدہ کا نام سیوا دیوی تھا جو برہمن تھیں۔ لیکن بیدی کے والد ہیرا سنگھ سکھ تھے۔ یوں بیدی کو گھر کے اندر ایک مفاہمت کی فضا ملی۔ والد تلاشِ روزگار میں لاہور آ گئے تھے جہاں صدر بازار لاہور کے ڈاک خانے میں ملازمت کرنے لگے۔ بیدی کو لاہور کینٹ کے ایک اسکول میں داخل کرایا گیا اور چار جماعتیں پاس کرکے وہ خالصہ اسکول میں داخل ہوگئے جہاں سے 1931ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ میٹرک کے بعد انٹرمیڈیٹ کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے ان کی والدہ شدید بیمار ہو گئیں۔ فالج کی وجہ سے وہ بستر سے لگ گئی تھیں۔ راجندر سنگھ بیدی کے والد اپنی بیوی کی خدمت میں جتے رہے اور ڈاک خانے کی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ تب، راجندر سنگھ بیدی نے اپنی تعلیم کو ادھورا چھوڑا اور اپنے والد کی جگہ ڈاک خانے کی ملازمت اختیار کر لی۔ اُس زمانے میں شادیاں کم عمری میں کر دی جاتی تھیں۔ 1934ء میں راجندر سنگھ کی شادی ستونت کور سے کر دی گئی۔ اُس وقت بیدی کی عمر صرف 19 برس تھی۔ ڈاک خانے کی ملازمت کے لمبے اوقات تھے۔ پھر بھی کام کے دوران جب کبھی وقت ملتا راجندر سنگھ اپنے شوق کی تکمیل کے لیے کہانیاں لکھتا رہتا۔ پھر آل انڈیا ریڈیو کے اردو سیکشن سے ملازمت کی پیشکش ہوئی اور وہاں چلے گئے۔ ریڈیو پر بیدی کے فن کے جوہر خوب کھلے۔ لیکن 1943ء میں ریڈیو چھوڑ کر مہیش واری اسٹوڈیو سے وابستہ ہو گئے تاہم ڈیڑھ سال بعد ریڈیو لوٹ گئے۔ اس وقت تک بیدی افسانوں کی دنیا میں معروف ہوچکے تھے۔ لاہور میں بیدی اپنا ادارہ قائم کرکے خوش تھے، اور وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک دن لاہور سے جدا ہونا پڑے گا۔ ان کا اشاعتی ادارہ بھی فسادات کی نذر ہو گیا۔ وہ دہلی چلے گئے اور بعد میں جموں ریڈیو میں ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ یہ 1948ء کی بات ہے۔ راجندر سنگھ بیدی زندگی کے کسی ایک رنگ سے کبھی مطمئن نہ ہوئے۔ ان کا تخلیقی وفور فلم کی دنیا میں لے گیا جہاں کہانیاں، مکالمے اور اسکرین پلے لکھنے کے بعد ہدایت کاری کے کوچے کا رخ کیا اور اس میدان میں بھی اپنے فن کا لوہا منوایا۔

بیدی کی ذاتی زندگی میں ایک گہرا خلا تھا۔ فلم کی دنیا میں اداکاراؤں کے ساتھ دوستی اور بیدی کی شراب نوشی ان کی بیوی کے لیے ناقابلِ برداشت تھی۔ وہ بیمار رہنے لگی اور انتقال کر گئی۔ اسی دوران فلم ”آنکھوں دیکھی‘‘ مکمل ہوگئی لیکن جس فلم پر بیدی نے زندگی بھر کی جمع پونجی لگا دی تھی، سینما کی زینت نہ بن سکی۔ آخر کار وہ بھی ہمیشہ کی نیند سو گئے۔

بیدی کو ان کے فن کے اعتراف میں کئی ایوارڈز سے نوازا گیا جن میں فلم فیئر ایوارڈ بھی شامل ہے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں