تازہ ترین

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

زیادتی کی متاثرہ کشمیری خواتین 75 سالوں سے انصاف کی منتظر

بھارت ہر دور میں تحریکِ آزادیِ کشمیر کو دبانے کے لیے اجتماعی زیادتی کو بطور ہتھیار استعمال کرتا رہا ہے، مقبوضہ کشمیر میں برہنہ بھارتی جمہوریت کا سب سے بڑا شکار کشمیری خواتین رہی ہیں، زیادتی کی متاثرہ یہ کشمیری خواتین گزشتہ 75 سالوں سے انصاف کی منتظر ہیں۔

کشمیر میڈیا سروس کے مطابق 1989 سے 2020 تک 11224 کشمیری خواتین بھارتی سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں جنسی زیادتی کا شکار ہو چکی ہیں، صرف 1992 میں 882 کشمیری خواتین اجتماعی زیادتی کا شکار ہوئیں۔

1994 کی ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق بھارتی فوج اجتماعی زیادتی کو خوف پھیلانے اور اجتماعی سزا کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے، بھارتی فوج مجاہدین کے خلاف انتقامی کارروائیوں کے طور پر لوٹ مار قتلِ عام اور جنسی زیادتی کرتی ہے۔

ایشیا واچ کی رپورٹ کے مطابق صرف ایک ہفتے میں 44 ماورائے عدالت قتل اور 15 جنسی زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوئے، سزا اور جزا کے نظام کی عدم موجودگی کی وجہ سے بھارتی فوج کی پُر تشدد کاروائیاں برسوں سے جاری ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ 75 سال گزرنے کے باوجود زیادتی میں ملوث کسی کردار کو سزا نہیں دی گئی۔

ریسرچ سوسائٹی آف انٹرنیشنل لا کی رپورٹ کے مطابق بھارتی فورسز نے 11 سے 60 سال تک کی خواتین کو بھی نہ بخشا، بھارتی حکومت کی طرف سے کُھلی چھوٹ کے نتیجے میں بھارتی افواج بلا خوف و خطر جنسی زیادتی کے جرائم میں ملوث ہیں۔

1996 میں ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق بھارتی فوج ’’ریپ‘‘ کو تحریک آزادی کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کر رہی ہے، بایان بورڈ آف ڈائریکٹرز کی 2005 کی رپورٹ کے مطابق کشمیری خواتین کے خلاف جنسی زیادتی کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے، شب ماتھوڑ کے مطابق ’’ریپ‘‘ کشمیر میں بھارتی حکمت عملی کا اہم جز ہے۔

کاؤنسل فار سوشل ڈیویلپمینٹ کے مطابق بھارتی فوجیوں کو زیادتی پر اُکسانے میں Armed Forces Special Power ایکٹ کا مرکزی کردار ہے، دی گارڈین کی رپورٹ کے مطابق 1979 سے 2020 تک میجر رینک کے 150 سے زائد بھارتی فوجی افسران منظم انداز میں جنسی زیادتی میں ملوث ہیں۔

23 فروری 1991 کو 4 راجپوتانہ رائفل کے جوانوں نے ضلع کپواڑہ کے گاؤں کنن پوش پورہ میں 100 سے زائد کشمیری خواتین سے زیادتی کی، 17 مارچ 1991 کو چیف جسٹس جموں و کشمیر کے تحقیقاتی کمیشن کے سامنے 53 کشمیری خواتین نے بھارتی فوجیوں کی طرف سے عصمت دری کا اعتراف کیا، 15 سے 21 مارچ 1991 کے دوران ہونے والے طبی معائنوں میں 32 کشمیری خواتین پر تشدد اور جنسی زیادتی ثابت ہوئی۔

1992 میں امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی شائع کردہ رپورٹ میں بھی کہا گیا کہ ’’کنن پوش پورہ سانحے میں بھارتی فوج کے خلاف اجتماعی زیادتی کے ناقابلِ تردید ثبوت موجود ہیں۔‘‘

اپریل 2018 میں کاکٹھوعہ میں ہندو انتہا پسند نے مسلمانوں سے زمین خالی کرنے کی خاطر 8 سالہ بچی کو 7 دن مندر میں زیادتی کا نشانہ بنایا، زیادتی کے بعد اس بچی کو بے رحمانہ طریقے سے قتل کر دیا گیا۔ 19 اپریل 2023 کو BJP کے رہنما نے ضلع بارہ مولہ میں ایک خاتون کو زیادتی کا نشانہ بنایا، 10 اکتوبر 1992 کو 22 گرینیڈیئر کے جوانوں نے ضلع پونہ کے علاقہ شوکیاں میں 9 خواتین کو اجماعی زیادتی کا شکار بنایا۔

کشمیری عدالتوں میں 1000 سے زائد زیادتی کے مقدمات زیر التوا ہیں، کیا G-20 ممالک کا کشمیر میں عصمت دری اور انسان دشمن بھارتی نظریہ کو فراموش کرتے ہوئے سرینگر کے اجلاس میں شرکت کرنا انسانیت کی تذلیل نہیں؟

Comments

- Advertisement -