تازہ ترین

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

ہمیں ملک کے مفاد میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں...

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

ہولناک جنگوں میں زندہ رہ جانے والا افغانی ہرن

کابل: افغانستان میں عشروں سے جاری جنگ اور خانہ جنگی نے جہاں ایک طرف تو لاکھوں جانیں لے لیں، وہیں افغانستان کے ماحول، انفراسٹرکچر، قدرتی وسائل اور جنگلی حیات کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔

تاہم ان تمام جنگوں کے باوجود ایک جانور ایسا تھا جو خود کو بچانے میں کامیاب رہا۔ یہ افغانستان کا بیکٹرین ہرن تھا جسے بخارا ہرن بھی کہا جاتا ہے اور یہ وسطی ایشیا کے علاقوں میں پایا جاتا ہے۔

سنہ 70 کی دہائی میں افغانستان اور روس کی جنگ کے درمیان جہاں لاتعداد افراد نے اپنی زندگیاں گنوائیں، وہیں سرخ ہرن کی نسل کے اس جانور کو بھی معدوم سمجھا جانے لگا۔ حتیٰ کہ 45 سال بعد ایک ماہر ماحولیات زلمی محب نے اس نایاب جانور کی ایک جھلک دیکھی۔

یہ محب اور ان کی ٹیم کے لیے بہت بڑا موقع تھا۔ انہیں اس جانور کی معدومی کا یقین ہوچکا تھا اور اس کی حفاظت اور بچاؤ کی تمام کوششیں اور امیدیں دم توڑ چکی تھیں۔

مزید پڑھیں: جاپان کا خوبصورت ہرن بے رحم انتظامیہ کے شکنجے میں

محب اور ان کی ٹیم نے بعد ازاں شمالی علاقوں میں اس ہرن کی تلاش کا کام شروع کیا اور جلد ہی وہ کامیاب ہوئے۔

ماہرین ماحولیات کے مطابق کسی جنگ زدہ علاقے میں صرف ہتھیار ہی نہیں ہوتے جو جانوروں کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں، بلکہ ان کے علاوہ بھی کئی عوامل ہوتے ہیں جیسے ان کی پناہ گاہوں کا خاتمہ، شکار کی عدم دستیابی، جنگلات کی کٹائی اور جنگلات میں انسانوں کا عمل دخل، جو کسی بھی جانور کے بچاؤ کی کوششوں کو ناکام کر سکتے ہیں۔

عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این کی ریڈ لسٹ (خطرے کا شکار جانوروں کی فہرست) میں نہ صرف ہرن بلکہ ہرن کی اس نایاب نسل کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

افغانستان کی مقامی اور دنیا بھر کی مختلف تنظیمیں برائے تحفظ جنگلی حیات اس ہرن کی حفاظت کے لیے کوشاں ہیں اور انہیں یقین ہے کہ جس طرح بدترین جنگی صورتحال میں بھی یہ ہرن اپنے آپ کو بچانے میں کامیاب رہا، اسی طرح ان کی کوششیں بھی رائیگاں نہیں جائیں گی۔

مضمون بشکریہ: بی بی سی


خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

Comments

- Advertisement -