تازہ ترین

5 لاکھ سے زائد سمز بند کرنے کا آرڈر جاری

ایف بی آر کی جانب سے 5 لاکھ 6...

اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف سے 1.1 ارب ڈالر موصول

کراچی: اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف سے 1.1...

سابق وزیراعظم شاہد خاقان کے سر پر لٹکی نیب کی تلوار ہٹ گئی

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے سر پر لٹکی...

پیٹرول یکم مئی سے کتنے روپے سستا ہوگا؟ شہریوں کے لیے بڑا اعلان

اسلام آباد: یکم مئی سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں...

وزیراعظم شہبازشریف کی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے اہم ملاقات

ریاض: وزیراعظم شہبازشریف کی سعودی ولی عہد اور...

فائرنگ سے ہلاک علی رہبر کے اہل خانہ کی دلخراش گفتگو

کراچی : شہر قائد میں گزشتہ دنوں ڈکیتی کے دوران فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے سید علی رہبر کے والدین اور اہل خانہ پولیس کی کارکردگی سے غیر مطمئن ہیں۔

اے آّر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے مقتول کے والد نے کراچی میں ڈکیتی کی سر عام وارداتوں، بے گناہ شہریوں کے قتل عام پر متعلقہ حکمرانوں کی کارکردگی اور امن و امان کی صورتحال پر سوالات اٹھا دیے۔

سید اختر حسین سروش کا کہنا تھا کہ ہم سحری کے لئے اٹھے تھے تو کال آئی کی جناح اسپتال میں علی رہبر کی لاش آئی ہے، 70 سال میری عمر ہے اور میرا بڑا بیٹا 38 سال کا تھا۔

مقتول سید علی رہبر کے والد سید اختر حسین سروش کا کہنا تھا کہ میرے والد سید یاور حسین کیف بنارسی نے اس قوم کو نعرہ دیا تھا کہ ’’لے کے رہیں گے پاکستان، بٹ کے رہے گا ہندوستان‘‘۔

اختر حسین سروش نے اپنے والد کی کتاب ’دل کی دھڑکن پاکستان‘بھی دکھائی جس میں وہ نظم موجود ہے جس کا ایک شعر ہر پاکستانی کی زبان پر تھا۔

انہوں نے بتایا کہ سال 1945 میں میرے والد نے ہندوستان میں بیٹھ کر پاکستان کا نعرہ لگایا تھا، وہ اعلیٰ آل انڈیا مسلم لیگ نیشنل گارڈ کے نائب سالار بھی تھے۔

جو کام پولیس کا تھا وہ میں کررہا ہوں، بھائی

شہید علی رہبر کے بھائی علی شہزر نے بتایا کہ پولیس کسی قسم کا کوئی تعاون نہیں کررہی بھائی کے سوئم والے دن میں گھر میں فاتحہ خوانی کرنے کے بجائے میں جائے وقوعہ پر شواہد اور سی سی ٹی وی کیمرے ڈھونڈ رہا تھا۔

ابو عید کی شاپنگ پر لے جانے والے تھے، بیٹا 

شہید علی رہبر کے بیٹے علی یاور نے بتایا کہ وہ پانچویں کلاس کے طالب علم ہیں اور ہمیشہ اچھی پوزیشن سے پاس ہوتے ہیں بچے نے بتایا کہ دادی نے ابو سے کہا تھا کہ ان کو عید کی شاپنگ کراؤ، جانے سے پہلے ابو نے مجھے بہت سارے پیسے دیے کہ یہ رکھ لو میں جہاں جا رہا ہوں وہ علاقہ ٹھیک نہیں ہے اور اس کے بعد ہی یہ واقعہ پیش آگیا۔

علی رہبر محنتی انسان تھا، والدہ کی گفتگو 

شہید کی والدہ نے بتایا کہ قانونی طور پر کسی نے ہماری کوئی مدد نہیں کی انہوں نے بتایا کہ میرا بیٹا بینک منیجر اور محنتی انسان تھا اور حالات کے پیش نظر فوڈ پانڈا کا کام کررہا تھا اس نے اس سے پہلے پھل فروٹ بھی فروخت کیے۔

Comments

- Advertisement -