22.2 C
Dublin
اتوار, مئی 12, 2024
اشتہار

صادق ہدایت: جدید فارسی ادب کا معتبر اور مقبول نام

اشتہار

حیرت انگیز

ایران کی تہذیب و ثقافت کے علاوہ اس ملک کے شاہی ادوار اور یہاں انقلاب و سیاست نے بھی ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے، مگر خطّے میں ادب اور صحافت کوئی بھی میدان ہو اہلِ‌ قلم کو جرأتِ اظہار پر طرح طرح کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں اور وہ آزادی سے کسی معاملے میں رائے نہیں دے سکے۔ فارسی ادب میں صادق ہدایت کے زمانے کو جدید افسانے کا دوسرا اور اصل دور کہا جاتا ہے جو ایک مصنّف ہی نہیں دانش وَر کے طور پر بھی دنیا بھر میں پہچانے گئے۔

صادق ہدایت ایرانی ادب کا وہ نام ہے جس نے افسانہ کو جدید خطوط پر استوار کیا۔ صادق ہدایت کو بیسویں صدی کے عظیم مصنفین میں شمار کیا جاتا ہے اور یہ مقام و مرتبہ انھیں افسانوں کے مجموعے ’زندہ بگور‘ (1930)، اُس کے بعد ’سہ قطرۂ خوں‘ (1932) سایۂ روشن (1933)، وغ وغ ساباب، طویل کہانی علویہ خانم (1933) اور ناول بوفِ کور (1937) کی بدولت ملا۔

جدید ایرانی ادب میں صادق ہدایت کا امتیازی وصف یہ رہا کہ انھوں‌ نے زبان بظاہر مزید سادہ اور صاف برتی لیکن وہ کہانی میں حقیقت پسندی اور تصوّرات کو اس طرح بہم کردیتے ہیں کہ کہانی کی شکل ہی کچھ اور ہو جاتی ہے۔ تاہم ان کی شخصیت اور قلم پر یاسیت پسندی اور پژمردگی حاوی رہی جس نے خود صادق ہدایت کو اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے پر مجبور کردیا۔ صادق ہدایت کی کہانیاں انسانی زندگی کی بدنما حالت اور نفسیاتی کرب کا مجموعہ ہیں جن میں فلسفیانہ قسم کا اضطراب، ناامیدی، یاسیت اور حد درجہ مایوسی نظر آتی ہے۔ صادق ہدایت کے کم و بیش تمام ہی افسانوں کے مرکزی کرداروں کا انجام یا تو کسی نہ کسی حال میں موت پر ہوا یا وہ خود کشی کرنے پر مجبور ہوگئے۔

- Advertisement -

1951ء میں آج ہی کے دن صادق ہدایت نے جو فرانس میں مقیم تھے، خود کشی کرلی تھی۔ صادق ہدایت کو فارسی ادب میں پہلا باقاعدہ قنوطی تخلیق کار سمجھا جاتا ہے جو مایوسی اور ناامیدی پر مبنی افسانے لکھنے کے باوجود ایران میں بے حد مقبول تھے۔ انھیں فارسی ادب میں قنوطیت (Nihilism) کا بانی کہا جاتا ہے۔

بیسویں صدی کا پہلا نصف حصّہ عالمی سطح پر تمدّن کی شکست و ریخت کا زمانہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس زمانے میں دو عالمی جنگوں نے انسانی آبادی اور اس سے وابستہ شعبوں کو بڑا نقصان پہنچایا۔ انسانی تہذیب اور ثقافت کو شدید نقصان ہوا اور دنیا بھر ناگفتہ بہ حالات پیدا ہوگئے جس کی جھلکیاں اس زمانے کے ادب میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ صادق ہدایت بھی اس سے متاثر ہوئے اور جدید فارسی ادب میں داستانوی حقیقت پسندی کی بنیاد رکھتے ہوئے اپنے ناولوں اور افسانوں کا موضوع عام آدمی کے مسائل اور مشکلات کو بنایا۔ انھوں نے زندگی کے تلخ حقائق کو الفاظ کا جامہ پہنایا۔

صادق ہدایت 1903ء کو تہران کے ایک متموّل گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے دارالفنون نامی ادارے سے ابتدائی تعلیم کے حصول کے بعد فرانسیسی زبان سیکھی۔ 20 سال کی عمر میں اعلیٰ‌ تعلیم کے حصول کی غرض سے وہ فرانس چلے گئے جہاں پہلی عالمی جنگ کے تباہ کن اثرات اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو دیکھا اور اس کا گہرا اثر لیا۔ بعد میں وہ ایران لوٹے، مگر یہاں کے حالات دیکھ کر ہندوستان منتقل ہوگئے۔ وہ اپنا تخلیقی سفر شروع کرچکے تھے اور بمبئی میں قیام کے دوران صادق ہدایت نے اپنا ناول بوف کور (The Blind Owl) تحریر کیا۔ ان کی یہ کہانیاں ہندوستان، ایران ہی نہیں دنیا بھر میں‌ مشہور ہوئیں۔ صادق ہدایت نے ڈرامہ اور سفرنامے بھی لکھے۔

صادق ہدایت کی تصانیف کی تعداد 30 سے زائد ہے اور یہ جدید ایرانی ادب کا حصّہ ہیں۔ فارسی زبان میں افسانے کو ایک نیا آہنگ اور بلندی عطا کرنے صادق ہدایت نے اپنے دور کے عوام کی بھرپور ترجمانی کی لیکن وہ دوسرے ادیبوں سے اس لیے ممتاز اور نہایت مقبول ہیں کہ انھوں نے عوامی زبان کو فارسی ادب کا حصّہ بنا کر اعتبار بخشا اور ایران کے عام کرداروں کو پیش کر کے انھیں وقار اور اہمیت کا احساس دلایا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں