حکومت نے اس ہوشربا مہنگائی کے عالم میں تنخواہ دار طبقے پر مزید ٹیکس کا بوجھ بڑھانے کی تیاریاں کرلی ہیں، ٹیکس نیٹ بڑھانے کیلئے تنخواہ دار ملازمین کو قربانی کا بکرا بنالیا گیا۔
اس حوالے سے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ماہر معاشیات خرم شہزاد نے خصوصی گفتگو کی اور ناظرین کو دیگر تفصیلات سے بھی آگاہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ سیاستدانوں کی غلطیوں کا پورا خمیازہ ہمیشہ عوام ہی بھگتتی ہے اور سارا بوجھ عوام پر ہی ڈالا جاتا ہے سیاسی غلطیوں کا سارا ملبہ عوام اور کارپوریٹ سیکٹر پر آرہا ہے کیونکہ وہ فیصلے نہیں ہوئے جو ہونے چاہیے تھے۔
خرم شہزاد کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کا مسئلہ سنجیدہ تو ہے لیکن وہ یہ نہیں کہتا کہ غریب عوام اور کارپویٹ سکیٹر سے ناانصافی کریں وہ تو کہتا ہے صرف آپ کے فنانس کے معاملات ٹھیک کرنے کی بات کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسئلے کا حل یہ نہیں ہے کہ صرف سیلری کلاس پر ہی بوجھ ڈٖال دیا جائے یا پھر صرف عوام یا کارپوریٹ سیکٹر جو پہلے ہی ٹیکس دیتے ہیں انہیں ہی تختہ مشق بنالیں۔
ماہر معاشیات نے بتایا کہ تنخوادار طبقے کی 40 سے 45 فیصد رقم ٹیکسز کی مد میں خرچ ہوتی ہے۔ کیونکہ جب ہم بینک سے سیلری نکالتے ہیں تو وہاں بھی ٹیکس کٹوتی کی جاتی ہے، اور یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی میں بھی ٹیکس ادا کیا جاتا ہے اور جب بازار سے سودا سلف لائیں تو 18 فیصد جی ایس ٹی وہاں بھی دینا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے شہریوں کو اس کے بدلے میں مل کچھ نہیں رہا بلکہ باقی اسی کمائی میں سے سیکیورٹی، بچوں کی تعلیم، صحت کے مسائل بھی حل کرنا ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب حکومت ہماری بنیادی ضروریات اور سہولیات ہی فراہم نہیں کرپا رہی تو ہم ٹیکس کیوں دیں؟