بدھ, ستمبر 18, 2024
اشتہار

نہیں لگتا مولانا فضل الرحمان سے متعلق حکومتی خواہش پوری ہوگی، سلمان اکرم راجہ

اشتہار

حیرت انگیز

اسلام آباد: رہنما پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سلمان اکرم راجہ کا کہنا ہے کہ نہیں لگتا مولانا فضل الرحمان سے متعلق حکومتی خواہش پوری ہوگی۔

اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’سوال یہ ہے‘ میں سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عام طور پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر وضاحت نہیں مانگی جاتی لیکن الیکشن کمیشن نے 3 سے 4 ہفتے پہلے وضاحت منگی جس کا ہم نے جواب دیا، الیکشن کمیشن کی درخواست اور ہمارا جواب دیکھ کر فیصلہ دیا گیا ہے، سپریم کورٹ کا جو فیصلہ آیا ہے اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں، وقت کی اہمیت نہیں ہے کیا وضاحتی فیصلہ آئینی ترمیم کے بعد آتا؟

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ گزشتہ ہفتے عدالت کا نیا سال شروع ہوا ہے ججز آپس میں ملیں ہوں گے، ایک صورتحال پیدا ہوگئی اور نظر آ رہا تھا کہ حکومت غلط قدم اٹھا رہی ہے، جب غلط قدم اٹھایا جا رہا ہو تو کیوں سپریم کورٹ اپنی وضاحت نہ دے، سپریم کورٹ نے فیصلے کی وضاحت دے کر بالکل درست کیا ہے۔

- Advertisement -

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ الیکشن کمیشن جب تک یہ نہیں کہتا کہ پارٹی الیکشن درست نہیں تب تک بیرسٹر گوہر چیئرمین ہیں، سپریم کورٹ نے یہی کہا ہے کہ الیکشن کمیشن آج تک بیرسٹر گوہر کو چیئرمین مانتا رہا ہے، سپریم کورٹ نہ کہتا کہ تب بھی قانونی طور پر پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر ہی ہیں، فیصلے کو پھر نہ مانا گیا تو یہ بجگانہ عمل ہوگا۔

’ہمارے پاس 40 حلف نامے ہیں اور ایک رکن سے متعلق ابہام ہے۔ ہمارے 41 ارکان ہیں اور 40 ارکان سے متعلق کوئی ابہام نہیں ہے۔ 8 ارکان ایسے ہیں جو 41 ارکان کی لسٹ میں نہیں ہیں۔ 8 ارکان میں بیرسٹر گوہر اور عمر ایوب بھی شامل ہیں۔ ہماری مولانا فضل الرحمان سے گفتگو ہوئی ہے وہ تاریخ کو سمجھتے ہیں ان کو پتا ہے کہاں کھڑے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ مولانا فضل الرحمان سے متعلق حکومت کی خواہش پوری ہوگی۔ حکومت کو خوش فہمی ہے کہ جے یو آئی (ف) کے 8 ارکان ان کو مل گئے ہیں۔‘

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آئینی مسودہ سامنے آنے کے بعد جے یو آئی کا ردعمل دیکھیں گے، میں نہیں سمجھتا مولانا فضل الرحمان آئینی ترمیم کی حمایت کریں گے، آئینی ترمیم میں ساتھ دینا ملک سے بے وفائی کے مترادف ہوگا، وزیر اعظم فیصلہ کرے گا کہ چیف جسٹس کس کو ہونا یہ آئین سے متصادم بات ہوگی، حکومت نمبر پورے کر کے آئینی ترمیم کر بھی لے تو معاملہ عدالت میں جائے گا، سپریم کوٹ معاملے کو دیکھے گی عین ممکن ہے آئینی ترمیم کو رد کر دیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ آئینی ترمیم بنیادی ڈھانچے سے ٹکراؤ کرتی ہو تو اسے رد کیا جا سکتا ہے، آرٹیکل 63 اے کے مطابق رکن پارٹی ہدایت کے خلاف ووٹ نہیں کر سکتا، حکومت آرٹیکل 63 اے کو اسی کی خلاف ورزی کر کے تبدیل کرنا چاہتی ہے، آرٹیکل 63 اے کو رد کرنے کیلیے بھی رائج قانون کے مطابق ہی تبدیلی کرنی پڑے گی۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں