تازہ ترین

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

ہمیں ملک کے مفاد میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں...

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

سعودی عرب: 2016ء میں 153 مجرموں‌ کے سر قلم

ریاض: سعودی عرب میں سال 2016 کے دوران 153 افراد کو سزائے موت دی گئی،یہ تعداد سال 2015 کے مقابلے میں نسبتاً کچھ کم ہے لیکن سعودی عرب اب بھی دنیا بھر میں سب سے زیادہ سزائے موت دینے والے ممالک میں شامل ہے۔

غیرملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب میں سال 2016 میں 153 افراد کی سزائے موت پر عمل درآمد کرایا گیا جو گزشتہ سال (2015) کے مقابلے میں تھوڑا کم ضرور ہے لیکن اب بھی سعودی عرب سزائے موت دینے والے ممالک کی فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے۔


یہ پڑھیں *سعودی عرب، تنخواہ کیلئے احتجاج پر 49 مزدوروں کو کوڑوں کی سزا


اس حوالے سے انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق 153 افراد میں زیادہ تر افراد کو قتل اور منشیات کی اسمگلنگ کے جرائم میں سزائیں دی گئیں تاہم محض گزشتہ سال جنوری میں ایک ہی روز میں دہشت گردی کے الزام میں 47 افراد کے سر قلم کیے گئے۔


* یہ بھی پڑھیں : سعودی عرب میں 15افراد کو سزائے موت سنا دی گئی


رپورٹ کے مطابق ان 47 افراد میں مشہور عالم شیخ نمر النمر بھی شامل تھے، جن کا سر قلم کیا گیا جس کے بعد ایران میں احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے تھے اور مشتعل افراد کی جانب سے تہران میں سعودی سفارتخانے کو نذر آتش کرنے کی بھی کوشش کی گئی تھی۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کا دعویٰ ہے کہ یہ اعداد و شمار سرکاری طور پر مہیا کیے گئے ہیں جن میں 153 سے 47 کو دہشت گردی کے الزام میں سزائیں ہوئیں جب کہ قتل، منشیات کی اسمگلنگ، چوری، زنا اور ہم جنس پرستی کے مرتکب افراد کے بھی سر قلم کیے گئے۔

saudi-koron-ki-saza

واضح رہے بقیہ دنیا کی بہ نسبت سعودی عرب میں عمومی طور پر سزائے موت پانے والوں کو پھانسی پر لٹکانے کے بجائے ان کا سرِ عام سر قلم کر دیا جاتا ہے جس کے لیے ایک مخصوص قسم کی تلوار استعمال کی جاتی ہے، یہ بہت ہولناک منظر ہوتا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیمیں سزا کے اس طریقہ کار کے خلاف آواز بلند کرتی رہتی ہیں اور سفارتی سطح پر بھی سعودی عرب کو دباؤ اور عالمی سطح پر سخت تنقید کا سامنا رہتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انہی سزاؤں کے باعث سعودی عرب میں جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل برطانیہ کے سربراہ برائے پالیسی اور بین الاقوامی افیئرز نے سعودی عرب میں 150 سے زائد افراد کو سزائے موت دینے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تحقیقات میں شفافیت اور ملزمان کو قانونی امداد فراہم کرنے ضرورت پر زور دیا ہے۔

Comments

- Advertisement -