اتوار, اکتوبر 6, 2024
اشتہار

فوجی عدالتوں میں ٹرائل : ملزمان کو اپیل کا حق ملے گا یا نہیں؟ حکومت نے غور کے لئے مہلت مانگ لی

اشتہار

حیرت انگیز

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے بعد ملزمان کو اپیل کے حق سے متعلق جواب کیلئےایک ماہ کی مزید مہلت مانگ لی،چیف جسٹس نے کہا کہ مہلت طلب کرنے پر بینچ مشاورت کرے گا۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں نو مئی سے متعلق فوجی عدالتوں کیخلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 6رکنی لارجربینچ نے سماعت کی۔

لارجربینچ میں جسٹس اعجازالاحسن،جسٹس منیب اختر ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی،جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں۔

- Advertisement -

سماعت کے آغاز پر  چیف جسٹس نے کہا کہ آج ہم اٹارنی جنرل کو پہلے سنیں گے، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے مجھے ہدایت دی تھی، میں نے 9مئی کےپیچھے منظم منصوبے کی بات کی تھی، میں نے تصاویر بھی عدالت میں پیش کی تھیں، ہم بہت محتاط ہیں کہ کس کیخلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلناہے، 102 افرا دکیخلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کیلئے بہت احتیاط برتی گئی۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ 9 مئی جیسا واقعہ ملکی تاریخ میں پہلےکبھی نہیں ہوا، 9 مئی جیسےواقعات کی مستقبل میں اجازت نہیں دی جا سکتی، میاں والی ایئربیس میں جب حملہ کیاگیااسوقت جنگی طیارےکھڑےتھے، مجھ سے شفاف ٹرائل کی بات کی گئی تھی۔

ڈسٹرکٹ بارایسوسی ایشن کیس فیصلےمیں ایک فرق ہے، جب عام شہری سول جرم کرے تو مقدمہ عام عدالتوں میں چلتاہے، 21ویں ترمیم کےبعدصورتحال تبدیل ہوئی ، عدالت میں دکھائے گئے وڈیو کلپس سے ظاہر ہے9مئی واقعات میں بہت سےافرادشامل تھے، بڑی تعداد ہونے کےباوجود احتیاط کے ساتھ 102 افراد کو کورٹ مارشل کیلئے منتخب کیا گیا۔

جس پر جسٹس مظاہر علی اکبر نے استفسار کیا کس کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوگا کس کا نہیں اس کا انتخاب کیسے کیا گیا ؟ تو ،اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مستقبل میں مئی9جیسے واقعات کا تدارک کرنا ہے ، میانوالی میں ائیر کرافٹ پرحملہ ہوا ایسا آرڈیننس فیکٹری یا کسی اور جگہ بھی ہو سکتا تھا، 9مئی جیسے واقعات کو مستقبل میں روکنا ہے ، سول جرائم اور سویلین کی جانب سے کئے گئے جرائم میں فرق ہے، ٹوون ڈی کے تحت ہونیوالے جرائم ہی ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہوں گے۔

دوران سماعت جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کسی فوجی کا جھگڑا کسی سویلین کے ساتھ ہو تو ٹرائل کیسے ہوگا؟ قانون بالکل واضح ہونا چاہیے، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمار کس دیئے سویلین پر فوجی ایکٹ کے اطلاق کیلئے21ویں ترمیم کی گئی تھی، سویلین پرعآرمی ایکٹ کےاطلاق کیلئےشرائط رکھی گئی ہیں، 21ویں آئینی ترمیم کےتحت فوجی عدالتیں مخصوص وقت کیلئےتھیں۔

جسٹس یحیی آفریدی نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ جیسے دلائل دےرہےہیں لگتا ہےاپنی ہی بات کی نفی کررہےہیں، اٹارنی جنرل نے آرمی ایکٹ 2015 کے سیکشن 2ون بی عدالت میں پڑھ کرسنایا، جس پر جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ آرمی ایکٹ2015میں زیادہ زور دہشتگرد گروپس پر دیا گیا تو اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ایکٹ میں افراد کا تذکرہ بھی موجودہے۔

جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ کل پارلیمنٹ ملٹری ایکٹ میں بنیادی انسانی حقوق شامل کرناچاہے توکرسکتی ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ پارلیمنٹ کے پاس قانون سازی کا مکمل اختیار ہے تو جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ یعنی ملٹری ایکٹ میں بنیادی انسانی حقوق دینایانہ دیناپارلیمنٹ کااختیارہے، یہ نہیں ہو سکتاایک پارلیمنٹ ملٹری ایکٹ میں بنیادی حقوق دےاگلی نکال دے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ سویلین پر فوجی ایکٹ کے اطلاق کیلئے 21ویں ترمیم کی گئی تھی، سویلین پر آرمی ایکٹ کے اطلاق کےلئے شرائط رکھی گئیں، 21ویں آئینی ترمیم کےتحت فوجی عدالتیں مخصوص وقت کیلئےتھیں۔

جسٹس یحیی آفریدی نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ جیسے دلائل دےرہےہیں لگتا ہے اپنی ہی بات کی نفی کررہے ہیں تو اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ 21ویں آئینی ترمیم سےقبل بھی آرمی ایکٹ کاسویلین پر اطلاق کا ذکر موجودتھا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ کے دلائل سے تو معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی حقوق ختم ہوگئے ہیں، کیا پارلیمنٹ آرمی ایکٹ میں ترمیم کرسکتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جی بالکل پارلیمنٹ آرمی ایکٹ میں ترمیم کرسکتی ہے ، جس پر جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ یہ کبھی نہیں ہوسکتا بنیادی انسانی حقوق کبھی آرہے ہیں کبھی جارہے ہیں، قانون بنیادی حقوق کے تناظر میں ہونا چاہیے ،آپ کی دلیل یہ ہے ریاست کی مرضی ہے بنیادی حقوق دے یا نہ دے۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے 21ویں ترمیم میں عدلیہ کی آزادی کے تحفظ کی بات کی گئی ہے، 21ویں ترمیم نےانتظامیہ،عدلتی اختیارات میں فرق کر کےبڑا تحفظ دیاتھا، 21ویں ترمیم میں ٹرائل میں مجوزہ طریقہ کاردے کرانسانی حقوق کاتحفظ کیاگیاتھا، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کو ملٹری ٹرائل کا طریقہ کار بتانا چاہتا ہوں۔

جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ ملٹری ٹرائل کاطریقہ کاربتانےکی کیاضرورت جب بنیادی حقوق کا اطلاق ہونا ہی نہیں؟ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ
آپ جوبتاناچاہتےہیں بتائیں ، بنیادی حقوق کو صرف قانون سازی سے ختم کیا جاسکتا ہے اس بارے میں سوچیں۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کسی آرمی افسرکوزخمی کرناذمہ داری اداکرنےسےروکنےکےمترادف ہوگا؟بنیادی انسانی حقوق کےبغیرجرائم پر کورٹ مارشل کی سزالگتی ہے، ایک طرف درج ہے ریاست انسانی حقوق سے ماوراکوئی قانون نہیں بناسکتی، دوسری طرف کہہ رہے ہیں مخصوص قانون میں انسانی حقوق کااطلاق ہوتاہی نہیں، آپ کی دلیل کی منطق سمجھنے سے قاصر ہوں۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے نظام عدل میں عدلیہ کی آزادی کومرکزی حیثیت حاصل ہے،عدلیہ کی آزادی کو سپریم کورٹ بنیادی حقوق قرار دے چکی ہے، ہم ٹرائل کورٹ پرسب کچھ نہیں چھوڑ سکتے، 2015میں 21ویں ترمیم کےذریعے آئین کو ایک طرف کردیاگیا مگر اب ایسا نہیں، آرمی ایکٹ کاسیکشن 2 پڑھیں جس میں سویلینزکے ٹرائل کی بات ہے۔

جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سیکشن2 کے مطابق کوئی سویلین دفاعی کام میں رخنہ ڈالےتوقانون کےنرغےمیں آتاہے، کوئی سویلین افواج کاڈسپلن خراب کرے توبھی قانون کے دائرے میں آتا ہے تو چیف جسٹس عمر عطابندیال نے سوال کیا افواج کا ڈسپلن کیسے خراب ہوا؟ عدلیہ کی آزادی انصاف کی بنیاد ہے، ملٹری ایکٹ کے تحت پراسیکیوشن ہی فیصلہ کرے گی اور اپیل بھی وہی سنیں گی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مسٹر اٹارنی جنرل2015 میں جوآئین کو پس پشت ڈالا گیا وہ اب نہیں ہورہا، فوجی عدالت کے فیصلے کیخلاف آزادانہ فورم پراپیل کاحق بنیادی حقوق کی ضمانت ہے۔

دوران سماعت تیز بارش سے عدالتی کارروائی میں خلل پیدا ہوا تو جسٹس منیب اختر نے کہا کہ تیز بارش کےسبب آپ کی آواز نہیں آ رہی ، جس پر اٹارنی جنرل نے سوال کیا کیا معزز ججز کو میری آواز آرہی ہے ،سپریم کورٹ میں دوران سماعت ججز نے مسکرانا شروع کر دیا۔

اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملزم کی کسٹڈی لینے کے بعد شواہد کی سمری تیار کر کے چارج کیا جاتا ہے ، الزمات بتا کر شہادتیں ریکارڈ کی جاتی ہیں ، کمانڈنگ افسر شواہد سے مطمئن نہ ہو تو چارج ختم کردیتا ہے، ملزم کو بھی موقع دیاجاتاہے کہ وہ اپنا بیان ریکارڈ کراسکتا ہے جبکہ ملٹری کورٹس میں دوران ٹرائل ملزم کسی لیگل ایڈوائزرسےمشاورت کر سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے بتایا کہ ملزمان کو اپنے دفاع کےلئے فوجی عدالتوں میں بہت کم وقت دیا جاتا ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل میں بھی فیصلہ کثرت رائے سے ہوتا ہے ، سزائے موت کی صورت میں فیصلہ دوتہائی سے ہونالازمی ہے تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہاں یہ معاملہ اس کیس سے متعلق نہیں ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ بادی النظر میں 102 ملزمان میں کسی کو سزائے موت یا 14 سال سزا نہیں دی جائے گی۔

جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا مطلب ہے سیکشن 3 اے کا کوئی کیس نہیں ہے، چیف جسٹس نے بھی سوال کیا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ایسا کوئی کیس نکل سکتا ہے تو اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ میرا بیان آج تک کی اسٹیج تک کا ہے۔

؛اٹارنی جنرل نےسپریم کورٹ کو یقین دہانی کرائی کہ 9 مئی واقعات پر ملٹری کورٹس کے ٹرائل کے فیصلوں میں تفصیلی وجوہات کا ذکر ہوگا۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ٹراٹل سے پہلے حلف بھی لیا جاتا ہے ، یہ حلف کورٹ میں تمام ممبران ایڈووکیٹ اور شارٹ ہینڈوالابھی لیتاہے، سزا سیکشن 105 اور رولز 142 کے تحت سنائی جاتی ہے، ملزم کو سزا سنانے کے بعد کنفرمیشن کا مرحلہ آتا ہے، کنفرمیشن سے پہلے جائرہ لیا جاتا ہے ٹرائل قانون کےمطابق ہوا یانہیں ، ملزمان کو وکیل کرنے کی اجازت دی جائے گی ، پرائیوٹ وکیل کی بھی ملزمان خدمات حاصل کرسکتے ہیں۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل کیخلاف اپیل کیلئےسیکشن133 موجود ہے ، تین ماہ سےزیادہ کی سزا پر 42دن کے اندر اپیل کرسکتے ہیں ، اپیل کورٹ آف اپیل میں کی جاسکتی ہے ،اٹارنی جنرل بھی لیا جاتا ہے۔

حکومت نے ملٹری کورٹس میں ملزمان کو اپیل کے حق سے متعلق معاملے پر غور کےلئے مہلت مانگ لی، اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس معاملے پر بہت محتاط رہ کر غورکی ضرورت ہے۔

سپریم کورٹ میں اٹارنی جنرل نے کلبھوشن یادیو کیس کا بھی حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم ایسے چلنا ہو گا کہ ملکی پوزیشن متاثر نہ ہو، کچھ چیزوں کا میں ذکر نہیں کر رہابہت کچھ ذہن میں رکھنا ہو گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل کی جانب سے ایک ماہ کی مہلت طلب کرنے پر بینچ مشاورت کرے گا اور آئندہ تاریخ مشاورت کے بعد اپنے حکم نامہ میں شامل کردیں گے۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں سے متعلق کیس کی سماعت غیرمعینہ مدت کیلئے ملتوی کردی۔

Comments

اہم ترین

راجہ محسن اعجاز
راجہ محسن اعجاز
راجہ محسن اعجاز اسلام آباد سے خارجہ اور سفارتی امور کی کوریج کرنے والے اے آر وائی نیوز کے خصوصی نمائندے ہیں

مزید خبریں