اشتہار

سپریم کورٹ نے سرکاری افسران کیلئے ‘صاحب’ کا لفظ استعمال کرنے سے روک دیا

اشتہار

حیرت انگیز

اسلام آباد : سپریم کورٹ نے سرکاری افسران کیلئے صاحب کا لفظ استعمال کرنے سے روک دیا اور کہا کہ دفاتر میں سرکاری ملازمین کیلئے صاحب کا لفظ حکمرانی کو ظاہر کرتا ہے۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں زمین کے معاوضے کے معاملے پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی ںے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور سرکاری افسران پر برہمی کا اظہار کیا، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت نے ایک سال قبل حکم جاری کیا تھا، ایک سال بعد بتایا جارہا ہے معاوضے کی ادائیگی کا عمل جاری ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے ہمیں اور آپ کو عوام کی جیبوں سےتنخواہیں ملتی ہیں، ہماری کارکردگی صفر ہے، ڈاکوؤں اور ریاست میں کوئی توفرق ہونا چاہیے ، عدالتوں کے ساتھ شفاف رویہ ہونا چاہیے اور نظام انصاف سےمذاق کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔

- Advertisement -

عدالت کا کہنا تھا کہ 17نومبر 2022 کو عدالت نے حکم جاری کیا ، وکیل پنجاب حکومت نے کہا متفرق درخواست دائر کردی گئی، ممبر بورڈ آف ریونیو پنجاب کی طرف سے جواب جمع کرا دیا گیا، حکومت پنجاب نے بشیراں بی بی کی زمین کی ملکیت کوتسلیم کیا، 26مارچ1990سے معاوضےکی ادائیگی کا کہا گیا، بشیراں بی بی کی زمین پرڈسٹرکٹ کمپلیکس کی تعمیر سےمتعلق ملکیت تسلیم کی۔

عدالت نے کہا کہ سوال یہ تھا ڈسٹرکٹ کمپلیکس کی تعمیرپربشیراں بی بی کو کتنا معاوضہ دیا جائے گا ، جب حکومت کسی فردکی ملکیت تسلیم کرے تو سمجھ سے بالاتر ہےمعاوضہ کیوں نہیں دیاگیا، لاہور سے کچھ افسران کو سپریم کورٹ بھیجا گیا کہ ہمیں ممبر صاحب نے بھیجا ہے، ہم نے سوال کیا کیوں آئے ہیں، جواب نہیں دیا گیا۔

عدالت کا مزید کہنا تھا کہ سرکاری ملازمین کا مقصد عوام کی خدمت کرنا ہے ، ممبر کےنام کیساتھ صاحب کا لفظ استعمال کرنا مائنڈ سیٹ کو ظاہر کرتا ہے، دفاتر میں سرکاری ملازمین کیلئے صاحب کا لفظ حکمرانی کو ظاہر کرتا ہے ، آئین میں ایسی کوئی شق موجود نہیں ہے۔

سپریم کورٹ نے سرکاری افسران کیلئے صاحب کا لفظ استعمال کرنے سے روکتے ہوئے کہا کہ آئندہ سماعت تک بشیراں بی بی کو معاوضہ دیا جائے ، معاوضہ نہ دیا گیا تو محکمہ پنجاب کے ممبر کو ذاتی حیثیت میں طلب کریں گے۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب ثنااللہ زاہد نے عدالت کو بتایا کہ وکلاکو طریقہ کار کے مطابق سناجائے، آپ کہتے ہیں تو استعفیٰ دے کر چلا جاتا ہوں ، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ
کھلی عدالت میں سماعت ہورہی ہے، ایک سال بعد آکر بتایا کہ معاوضے کی ادائیگی پرکچھ نہیں کیا گیا، آپ نے عدالت کو شرمندہ کردیا ہے۔.

عدالت نے دو ماہ میں بشیراں بی بی کو معاوضہ ادا کرنے کا حکم دے دیا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں