تازہ ترین

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

نوازشریف کی درخواست ضمانت 6 ہفتے کے لیے منظور، سزا معطل

اسلام آباد : سپریم کورٹ نے نوازشریف کو چھ ہفتے کیلئے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے سزا معطل کردی اور کے بیرون ملک جانے پر پابندی لگادی اور  50لاکھ کے مچلکے جمع کرانے کا بھی حکم دیا۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں3رکنی بینچ نے نواز شریف کی درخواست ضمانت پر سماعت کی، سماعت میں چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ نےاضافی دستاویزجمع کرائی ہے؟ جس پروکیل خواجہ حارث نے جواب دیا جی یہ ڈاکٹر لارنس کا خط ہے تو چیف جسٹس نے کہا یہ تو انہوں نےکسی ڈاکٹر عدنا ن کے نام خط لکھا ہے، خواجہ حارث نے مزید بتایا ٖڈاکٹرعدنان نوازشریف کےذاتی معالج ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا میں کیسے معلوم ہوکہ یہ خط کس نےکس کو لکھا؟ یہ تو 2عام لوگوں کےدرمیان کی خط و کتابت ہے، یہ آپ نےجمع کرایاتوہم نےاسے پڑھ لیا، جس پر نواز شریف کے وکیل نے کہا میں اپنے کیس میں اس خط پرانحصا ر نہیں کر رہا ،گذشتہ سماعت پر 5 مختلف میڈیکل بورڈز کی رپورٹس پیش کی تھیں ، رپورٹس میں واضح ہے نواز شریف کو دل اورگردوں کا عارضہ ہے۔

خواجہ حارث کا مزید کہنا تھا نوازشریف کودل کی بیماری مزید بڑھ سکتی ہے، دل کا مرض پیچیدہ ہے، انجیوگرافی کرانے کی ضرورت ہے، شوگر اور ہائپرٹیشن کو مسلسل دیکھنا ضروری ہے، ان کو گردوں کی بیماری بھی اسٹیج تھری کی ہے، چوتھے درجے پر ڈائلسز درکار ہے اور پانچویں پرگردے فیل ہوجاتے ہیں۔

چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے استفسار کیا کیا ہم ڈاکٹر لارنس کی بات من وعن تسلیم کرلیا ؟ کیا ڈاکٹر لارنس کے خط کےعلاوہ ان کے مرض کا کوئی ثبوت نہیں؟ ڈاکٹر لارنس نےگردوں کے مرض کو اسٹیج 4 کا کہا ہوتا تو کیا اسے بھی قبول کرلیں؟ طبی بنیاد پر کیس بنا رہے ہیں، ہمارے پاس صرف ایک ڈاکٹر لارنس کا خط ہے۔

نواز شریف کے وکیل نے کہا ہمارے تشکیل بورڈنےبھی گردوں کےمرض کواسٹیج تھری قراردیا، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا 17سال سے نوازشریف کویہ بیماریاں لاحق ہیں، بیماریوں کے باوجود انھوں نے خاصامتحرک معمول زندگی گزارا، ضمانت کے لیے طبی بنیاد تب ہی بنےگی جب ان کی طبیعت زیادہ خراب ہو۔

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا 2003 سے ان کودل کا مرض ہے ، ہمیں دیکھنا ہے ان کو جان کاخطرہ تو لاحق نہیں ؟ اگر علاج جیل میں ممکن نہ ہو تب ہی ضمانت پر رہائی دی جاسکتی ہے، کہا جاتا ہے جس کابائی پاس ہوجائے وہ 20سال جوان ہوجاتا ہے۔

چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے مکالمے میں کہا آپ کو بلڈاپ کرناہے اب جیل میں رہنےسےان کی جان کوخطرہ ہو سکتاہے، جس پر خواجہ حارث نے کہا تمام بورڈ نےکہا نواز شریف کی انجیوگرافی درکار ہے، انجیو گرافی میں گردوں اورشوگرکرکو مد نظررکھناضروری ہے، دل سےدماغ کوخون کی سرکولیشن 43 فیصد بلاک ہے۔

ہمیں دیکھنا ہے ان کو جان کاخطرہ تو لاحق نہیں ؟ اگر علاج جیل میں ممکن نہ ہو تب ہی ضمانت پر رہائی دی جاسکتی ہے ، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا پاکستان کے اسپتال اس قابل ہیں کہ ان کا علاج کر سکیں ، آپ جوبھی اسپتال کہیں ہم اس میں علاج کا حکم دے دیتے ہیں،  تو خواجہ حارث نے جواب دیا ہم باہر جانے کی اجازت نہیں ضمانت مانگ رہے ہیں ، علاج ہونا ہے،دماغ پر دباؤکو ضمانت سے دور کیا جاسکتا ہے ۔

چیف جسٹس نے کہا 2ہفتےمیں ہائی کورٹ میں اپیل کی سماعت ہونی ہے، ایسی کوئی نظیر نہیں کہ مرکزی اپیل پر سماعت ہواور ضمانت دی جائے، جس  پر خواجہ حارث کا کہنا تھا اس اپیل پر فیصلہ 2سے 3ہفتوں میں نہیں ہونا ، اس میں 4 ہزار صفحات ہیں یہ وقت طلب اور لمبا کیس ہے، تو جسٹس آصف  کھوسہ نے کہا آپ کہتے ہیں پہلے وہ دباؤ سےباہر نکلیں، پھر علاج کروائیں ، طبی بنیادوں پر ضمانت دیدی جائےتوکیا علاج میں عدالت مددکر سکتی۔

خواجہ حارث نے کہا ڈاکٹر عاصم کو بھی سندھ ہائیکورٹ نے طبی بنیادوں پر ضمانت دی ، جس پر چیف جسٹس نے کہا ڈاکٹر عاصم سزا یافتہ نہیں تھے ان کی  مثال آپ کے کیس میں لاگونہیں ہو تی توخواجہ حارث نے مزید کہا گزشتہ سماعت پربھی عدالت سے گزارش کی تھی باہر جانے کی کوئی نیت نہیں ، جب  تک کے باہر جا کر علاج کروانا ناگزیر نہ ہو۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا پہلے جیل ڈاکٹر کی رپورٹ کو تسلیم نہیں کیا، بعد میں دیگر میڈیکل بورڈ ز پر عدم اعتماد کیا، ہم طبی بنیادوں پر ضمانت کی سہولت  کو مس یوز کرتے ہیں ، ہمیں بحیثیت قوم ان چیزوں کودیکھنا ہے،، جس پر خواجہ حارث نے کہا نواز شریف کا نام ای سی ایل میں ہے وہ کہیں بھی نہیں جا رہے ۔

جسٹس آصف کھوسہ نے کہا آپ ذہنی دباؤ دور کرنا چاہ رہے ہیں، میرا خیال ہےہرقیدی یہ دباؤ دور کرنا چاہے گا ، جس پرخواجہ حارث کا کہنا تھا میڈیکل ہسٹری اور موجودہ صحت کی صورتحال پر ضمانت کی استدعا کر رہے ہیں ۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے نیب کے دباؤ کی وجہ سےلوگ خود کشیاں کر رہےہیں، ہم اس معاملے کو بھی دیکھیں گے، جس پر اے جی نیب نے بتایا پاکستان میں 5 ایسے اسپتال ہیں جہاں دل کی ہربیماری کاعلاج ہوسکتا ہے۔

نیب پراسیکیوٹر نے دلائل میں کہا طبی ماہرین کہہ رہے کہ نواز شریف کی صحت مستحکم ہے ، خواجہ حارث کا کہنا تھا اسلام آپریشن کی صورت میں ان اسٹیبل ہو سکتے ہیں ،عدالت پر منحصر ہےصحت کو اسٹیبل سمجھے یا ان اسٹیبل ، عدالت 8 ہفتے کے لیے نواز شریف کو طبی بنیادوں پر ضمانت دے، 8 ہفتے بعد عدالت اس پر نظرثانی کر سکتی ہے۔

سپریم کورٹ نے نوازشریف کی طبی بنیادوں پرضمانت کی درخواست منظور کرلی ، درخواست ضمانت 50لاکھ کے مچلکوں اور 2شخصی ضمانتوں پر منظور کی  گئی اور نوازشریف کو چھ ہفتے کیلئے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے سزا معطل کردی، مختصر فیصلہ چیف جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے سنایا۔

نواز شریف ملک سےباہرنہیں جاسکتے

سپریم کورٹ نے نواز شریف کےبیرون ملک جانے پر پابندی لگادی اور فیصلے میں کہا نواز شریف ملک سے باہرنہیں جاسکتے، 6ہفتے بعد ضمانت ازخود ختم ہو جائے گی، 6 ہفتے بعد علاج مکمل نہ ہوا تو نوازشریف گرفتاری دے کرجیل جائیں۔

فیصلے میں کہا گیا ازسرنو ضمانت کے لیےہائیکورٹ سےرجوع بھی کرسکتےہیں جبکہ 50 لاکھ کے 2 ضمانتی مچلکے ایڈیشنل رجسٹرار کے پاس جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا نواز شریف کوضمانت میں توسیع چاہیےتوہائی کورٹ سےرجوع کریں۔

مزید پڑھیں : نیب نے نوازشریف کو طبی بنیادوں پر ضمانت دینے کی مخالفت کردی

گذشتہ روز نیب کی جانب سے نوازشریف کو طبی بنیادوں پر ضمانت دینے کی مخالفت کی گئی تھی اور تحریری جواب جمع کرایاگیا تھا، جس میں کہا گیا تھا نواز  شریف کوایساعارضہ نہیں جس سے جان کوخطرہ ہو، وہ بہانے سے بیرون ملک جانا چاہتےہیں۔

نیب کا کہنا تھا نوازشریف کوعلاج کی تمام سہولتیں دی جارہی ہیں، ضمانت کی درخواست میں جان لیوا بیماری کا کوئی مواد نہیں، نوازشریف کے ڈاکٹر لارنس  کی رپورٹ غیرمصدقہ اور خودساختہ لگتی ہے، ضمانت ملی تو نواز شریف عدالتی حدود سے باہر چلے جائیں گے، استدعا ہے نواز شریف کی درخواست ضمانت مسترد کی جائے۔

یاد رہے گزشتہ سماعت پر عدالت نے 6مختلف میڈیکل رپورٹس کا جائزہ لیاتھا، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا تھا نوازشریف نے تمام بیماریوں کے ساتھ بڑی مصروف زندگی گزاری، انہوں نے انتخابی مہم چلائی، نوازشریف نے جلسے اورریلیوں کے ساتھ ٹرائل کا بھی سامنا کیا، دیکھنا ہے مرض پہلے جیسا ہے یا بگڑگیا ہے۔

مزید پڑھیں : نوازشریف کا سزامعطلی اور ضمانت کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع

خیال رہے 25 فروری کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے طبی بنیادوں پرضمانت پررہائی سے متعلق فیصلہ سنایا تھا، فیصلے میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی درخواست ضمانت کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا نوازشریف کوایسی کوئی بیماری لاحق نہیں جس کاعلاج ملک میں نہ ہوسکے۔

جس کے بعد یکم مارچ کو سابق وزیراعظم نوازشریف نے ہائی کورٹ کی جانب سے درخواست ضمانت مسترد کرنے کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائرکی تھی، درخواست میں موقف اختیار کیا گیا نوازشریف جیل میں قید ہیں، سنجیدہ نوعیت کی بیماریاں ہیں، میڈیکل بورڈ کے ذریعے نوازشریف کے کئی ٹیسٹ کرائے گئے۔

دائر درخواست کے مطابق درحقیقت نوازشریف کودرکارٹریٹمنٹ شروع بھی نہیں ہوئی، نوازشریف کوفوری علاج کی ضرورت ہے، علاج نہ کیا گیا تو صحت کوناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

واضح رہے گزشتہ سال 24 دسمبر کو سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز کا فیصلہ سنایا گیا تھا، فیصلے میں نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں مجرم قرار دیتے ہوئے 7 سال قید کی جرمانے کا حکم سنایا تھا جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کردیا گیا تھا۔

Comments

- Advertisement -