سائنسدانوں کا خیال ہے کہ سلیکن کی تہہ چڑھانا ایک ماحول دوست عمل ہے اور اس سے بجلی بنائی جاسکتی ہے۔
اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکا سمیت دیگر ممالک کم خرچ میں بجلی بنانے کے تحت اپنے گھروں اور دفاتر کے فرش میں لکڑی کی پرت چڑھاتے ہیں، فرش پر سیلکن کی باریک تہہ چڑھا کر اس میں دھاتی آئرن ملادیا جاتا ہے، جس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس پر چلنے پھرنے سے بجلی بنتی رہے گی۔
اسی نظریئے کی بنیاد پر ای ٹی ایچ زیورخ کے پروفیسر گوئیڈو پینزراسا اور ان کے ساتھیوں نے لکڑی کی ٹائل نما چادر پر سلیکن لگایا، اب سلیکن والی لکڑی کسی شے سے متصل ہونے پر الیکٹران لینے لگی۔ اس کے بعد دوسرے پینل میں نینوکرسٹل شامل کئے گئے، یہ نینو کرسٹل ’زیولیٹک آئمائی ڈیزولیٹ فریم ورک ایٹ پرمشتمل تھے جسے مختصراً زیڈ آئی ایف ایٹ کا نام دیا گیا ہے۔
یہ ایک ایسا مرکب ہے جس میں دھاتی آئن اور کچھ نامیاتی سالمات ہوتے ہیں، ان کرسٹلز کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ الیکٹرون کھودیتے ہیں، فزکس کی زبان میں یہ عمل ’فنکشنلائزیشن‘ کہلاتا ہے۔
اس طرح عام لکڑی کے مقابلے میں الیکٹرون لینے اور دینے کی شرح 80 فیصد تک بڑھ گئی اس طرح لکڑی کی دو پرتوں پر چلنے سے اتنی بجلی ضرور بنی کہ اس سے ایک ایل ای ڈی بلب جلایا جاسکتا ہے۔
اس طرح 2 سینٹی میٹر چوڑے اور 5 سینٹی میٹر لمبے لکڑی کے ٹکڑے پر جب 50 نیوٹن کی قوت لگائی جائے تو اس دباؤ سے 23 وولٹ بجلی پیدا ہوتی ہے۔ اس طرح عام اے فور کاغذ کی جسامت کی لکڑی سے چھوٹے بلب اور دیگر دستی آلات مثلاً کیلکیولیٹر چلائے جاسکتے ہیں۔