تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

نیا کپتان کون؟ سفارشات چیئرمین پی سی بی کو ارسال

پاکستان کرکٹ ٹیم کا وائٹ بال میں نیا کپتان...

اے آر وائی نیوز کی بندش، سینیٹ نے پیمرا سے ٹی وی چینلز کی پوزیشن پر تفصیلات طلب کرلیں

سینیٹ کی کمیٹی اطلاعات و نشریات نے اے آر وائی نیوز کی بندش کے معاملے پر پیمرا سے ٹی وی چینلز کی پوزیشن پر تفصیلات طلب کرلیں۔

اے آر وائی نیوز کے مطابق سینیٹر فیصل جاوید کی زیرصدارت سینیٹ کمیٹی برائے اطلاعات ونشریات کا اجلاس ہوا جس میں سیکریٹری اطلاعات ونشریات اور پیمرا حکام کے علاوہ صحافیوں نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں سینئرصحافیوں، اینکرز کے خلاف ہونیوالی کارروائیوں سے متعلق بریفنگ بھی دی گئی جب کہ کمیٹی نے پیمرا سے ٹی وی چینلز کی پوزیشن پر تفصیلات طلب کرلیں۔

سینیٹ کی کمیٹی برائے اطلاعات ونشریات کے اجلاس میں چیئرمین کمیٹی فیصل جاوید نے کہا کہ آزادی اظہار رائے پر تابڑ توڑ حملے ہورہے ہیں قدغن لگائی جارہی ہیں، اے آر وائی نیوز کی کیبل پر پوزیشن تبدیل ہو رہی ہے یا بند کیا جارہا ہے، کئی صحافیوں کے خلاف ایف آئی آر درج ہوچکی ہیں، اس وقت وزارت اطلاعات کون چلا رہا ہے؟

اس موقع پر سیکریٹری اطلاعات ونشریات نے جواب دیا کہ مریم وزارت اطلاعات چلا رہی ہیں، جس پر فیصل جاوید نے وضاحت طلب کی کہ کونسی مریم وزرات اطلاعات چلا رہی ہیں تو سیکریٹری اطلاعات ونشریات نے کہا کہ مریم اورنگزیب کی جانب سے ہدایات ملتی ہیں۔

اس موقع پر چیئرمین پیمرا نے کہا کہ آپ خالد آرائیں کو بلا کر پوچھ لیں کہ کیا پیمرا نے چینلز بند کرنے کا کہا؟

فیصل جاوید بولے کہ آپ اگر چینل کھلوا سکتے ہیں تو بند بھی کرا سکتے ہیں۔

چیئرمین پیمرا نے کہا کہ ہم چینلز بند نہیں کرا رہے، جنہوں نے اے آر وائی کو بند کیا ان کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں۔

چیئرمین پیمرا کے اس موقف کے بعد کمیٹی نے کیبل پر ٹی وی چینلز کی پوزیشن پر پیمرا سے تفصیلات طلب کرلیں اور اس کے ساتھ ہی ٹی وی چینلز کو جاری اشتہارات کی تفصیلات بھی آئندہ اجلاس میں طلب کرلی ہیں۔

اے آر وائی نیوز کے اینکر ارشد شریف نے کمیٹی کو بتایا کہ کچھ اشخاص اور ادارے خود کو ریاست سمجھنا شروع ہوگئے ہیں، کمیٹی کے پاس اختیارات ہیں سندھ، کےپی اور بلوچستان کے آئی جیز کو بلایا جائے اور ان سے پوچھا جائے کہ صحافیوں کے خلاف کیسے ایف آئی آر درج ہوئیں؟ ہم آئین اور قانون کے مطابق اس ملک میں رہنا چاہتے ہیں۔

ارشد شریف نے مزید کہا کہ اے آر وائی نیوز کی نشریات بند کی گئیں، جس کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم پر کھولا گیا، سیالکوٹ، لاہور اور ملک کی دیگر کنٹونمنٹ میں اے آر وائی کو پھر بند کیا گیا جو کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم کی خلاف ورزی ہے اے آر وائی نیوز کو بند کرنے والے کیبل آپریٹرز کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: ملک کے مختلف کینٹ ایریاز میں اے آر وائی نیوز کی نشریات بند

اے آر وائی نیوز کے اینکر صابر شاکر نے بذریعہ ویڈیو لنک اپنا بیان دیتے ہوئے کہا کہ ملک سے باہر ہوں، دھمکیاں مل رہی ہیں کہ واپسی پر جہاز سے اٹھا لیں گے، مریم اورنگزیب سے حلف لیکر پوچھا جائے کہ وزارت اطلاعات کون چلارہا ہے؟

اس موقع پر اینکر عمران ریاض نے کمیٹی کا آگاہ کیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے ہدایت دیں کہ میرے گھر کا نقشہ چیک کیا جائے، جس کے بعد ڈرون کے ذریعے میرے گھر کی تصاویر بنائی گئیں، وزیراعلیٰ پنجاب چاہتے ہیں کہ میرا گھر گرایا جائے، مختلف شہروں میں مقدمات درج کئے جارہے ہیں، عدالت سے ضمانت لے رکھی ہے۔

فیصل جاوید نے کہا کہ صحافیوں کا جرم سنگین ہے کہ وہ حق اور سچ کی آواز بلند کرتے ہیں، سینیٹ کمیٹی کے شرکا نے کہا کہ مزید صحافیوں کے خلاف بھی ایف آرز درج ہیں، صحافیوں کے تحفظ، ایف آئی آرز کا معاملہ آئندہ اجلاس میں زیر بحث رہے گا، وزارت اطلاعات صحافیوں اور انکی فیملی کے تحفظ کیلئے اقدامات کرے۔

Comments

- Advertisement -