کراچی: شہر قائد میں کرونا وائرس کے کیسز سامنے آنے کےبعد مزید کئی علاقے سیل کر کے پولیس اہل کار تعینات کر دیے گئے، لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی پر سندھ بھر میں مزید 273 افراد گرفتار کر لیے گئے، علاقے سیل کیے جانے کے سبب طبی عملہ بھی پریشانی کا شکار ہو گیا۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق کراچی میں لاک ڈاؤن کا 21 واں روز ہے، پابندیوں میں مزید سختی کر دی گئی ہے، ملیر، گلشن اقبال کی بعض گلیاں اور محلے مکمل سیل کر دیے گئے، ڈالمیا اور شانتی نگر کے گلیوں اور محلوں کو بھی مکمل سیل کر دیا گیا، گلیوں کے باہر رکاوٹیں کھڑی کر کے پولیس اہل کار تعینات کر دیے گئے، مرکزی شاہراہ پر اشیائے خورد و نوش کی چند دکانیں کھلی رہنے دی گئیں، نیشنل اسٹیڈیم سے راشد منہاس روڈ جانے والی سڑک بند کر دی گئی۔
پولیس کی جانب سے ڈسٹرکٹ ایسٹ، کنٹونمنٹ و دیگر یو سیز کو بھی سیل کرنا شروع کر دیا گیا ہے، ڈالمیا کے علاقے میں 15 گلیوں کو رکاوٹیں، شامیانے لگا کر سیل کیا گیا، گلزار ہجری، گلشن اقبال کی مختلف شاہراہوں کو بھی رکاوٹیں لگا کر بند کر دیا گیا۔ پولیس نے ڈیفنس ویو میں واٹر ٹینکر اور ٹینٹ لگا کر داخلی و خارجی راستے بھی بند کر دیے، کسی شہری کو باہر جانے اور نہ اندر آنے کی اجازت ہے۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ شہر کے حساس علاقوں کی مانیٹرنگ کی جا رہی ہے، اتوار کے روز سڑکوں سے نفری کم کر کے مختلف علاقوں میں بڑھا دی گئی ہے، نفری کو گلیوں میں رکھنے کے احکامات دیے گئے ہیں۔ پولیس کی جانب سے شہریوں کو گھروں میں رہنے کی ایک بار پھر اپیل کر دی گئی، پولیس نے بیان میں کہا ہے کہ غیر ضروری نکلنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی، پولیس کی جانب سے اپیل کی گئی کہ کھلنے والی دکانوں، بازاروں میں عوام کا فاصلہ یقینی بنائیں۔
کراچی کی 11 یوسیز کو سیل کرنے کا فیصلہ چند گھنٹوں بعد واپس
ادھر لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی پر سندھ میں مزید 273 افراد گرفتار کیے گئے ہیں جن کے خلاف 99 مقدمات درج کیے گئے، لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی پر گرفتار افراد کی تعداد 5 ہزار 336 ہو گئی، جب کہ مقدمات کی تعداد ایک ہزار 716 ہو گئی ہے۔ کراچی سے لاک ڈاؤن کے 20 ویں دن 156 افراد گرفتار اور 62 مقدمات درج کیے گئے۔
کراچی کے بعض علاقوں کو اچانک سیل کرنے سے ڈاکٹرز اور دیگر طبی عملہ بھی پریشانی کا شکار ہو گیا ہے، گلشن اقبال کے ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل اسٹاف بھی گھروں پر محدود رہنے پر مجبور ہو گیا، این آئی سی ایچ کی ڈاکٹر حرا صدیقی نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 36 گھنٹے ڈیوٹی کے بعد گھر جانے کے لیے ساری سڑکیں بند ملیں، مجھے لینے کے لیے والد گھر سے نکلے مگر انھیں ہر جگہ راستہ بند ملا، پیشگی اطلاع ملی نہ ہی بتایا گیا کہ ایمرجنسی میں کون سا راستہ کھلا ہے۔
ڈاکٹر حرا صدیقی کا کہنا تھا کہ ہمیں یا تو اسپتال میں ہی رہائش دی جائے یا گھر جانے کی سہولت دی جائے۔ ڈاکٹر حرا کے والد کا کہنا تھا کہ وہ گلستان جوہر میں رہتے ہیں، بیٹی کی کال پر اسپتال لینے گئے تو بہت زحمت ہوئی، تین گھنٹوں تک مختلف سڑکوں اور چوراہوں پر گھومتے رہے لیکن کوئی بتانے کو تیار نہیں کہ اس صورت حال میں کیسے جائیں۔