بدھ, جون 26, 2024
اشتہار

شاہد احمد دہلوی:‌ اردو کا صاحبِ طرز ادیب

اشتہار

حیرت انگیز

اردو کے صاحبِ طرز ادیب شاہد احمدد ہلوی نے خاکہ نگاری، تذکرہ نویسی اور تراجم کے ساتھ ادبی صحافت میں بھی نام پیدا کیا۔ وہ ایک جید موسیقار بھی تھے۔ 27 مئی 1967ء کو وفات پانے والے شاہد احمد دہلوی نے کئی کتابیں یادگار چھوڑیں اور دہلی کی با محاورہ زبان اور اس کا چٹخارہ ان کے اسلوب کا خاصہ ہے۔ آج شاہد احمد دہلوی کی برسی ہے۔

شاہد احمد دہلوی کا تعلق ایک ایسے علمی و ادبی گھرانے سے تھا جس نے اردو ادب کو اپنی نگارشات کی صورت میں مالا مال کیا۔ وہ اردو کے نام وَر ادیب اور مشہور ناول نگار ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے اور معروف ادیب مولوی بشیر الدین احمد کے فرزند تھے۔ شاہد احمد دہلوی 1906ء میں دہلی میں‌ پیدا ہوئے۔ وہ ایک خوش حال گھرانے کے فرد تھے۔ تعلیم و تربیت کے مراحل طے کرتے ہوئے جس علمی و ادبی ماحول میں‌ ان کی پرورش ہوئی، اس نے شاہد احمد دہلوی کو بھی لکھنے لکھانے پر آمادہ کیا۔ موسیقی سے انھیں عشق تھا اور لکھنا پڑھنا ان کا بہترین مشغلہ۔

شاہد احمد دہلوی مشہور ادبی مجلّہ ’’ساقی‘‘ کے مدیر تھے۔ دہلی کی بامحاورہ زبان پر ان کی جو گرفت تھی وہ انھیں ہم عصروں میں ممتاز کرتی ہے۔ ان کی دو کتابیں ’’دہلی کی بپتا‘‘ اور ’’اجڑا دیار‘‘ اس اسلوب میں ان کی انفرادیت کی مثال ہیں۔ جہاں تک فن موسیقی کا تعلق ہے تو عوام الناس کی اکثریت ان کی زندگی کے اس گوشے سے روشناس نہیں۔ شاہد احمد دہلوی جہاں اردو کے ایک فقید المثال ادیب تھے، وہاں وہ کلاسیکی موسیقی کے ایک جید عالم اور عامل بھی تھے۔ انہیں بچپن ہی سے موسیقی سے لگاؤ تھا۔ میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد انہوں نے کلاسیکی موسیقی کی باقاعدہ تربیت حاصل کرنا شروع کر دی۔ ان کے پہلے استاد پنڈت لکشمن پرشاد تھے۔ ان کے بعد انہوں نے برصغیر کے عہد ساز اور نابغہ روزگار سارنگی نواز استاد بندو خاں کے برادر نسبتی استاد چاند خاں دہلوی سے موسیقی کی تعلیم حاصل کی۔ 1937ء میں شاہد احمد دہلوی نے ایس۔ احمد کے نام سے کلاسیکی گائیک کی حیثیت سے آل انڈیا ریڈیو دہلی کے پروگراموں میں شرکت کرنا شروع کر دیا اور 1947ء تک وہ مسلسل موسیقی کے پروگراموں میں حصہ لیتے رہے۔

- Advertisement -

شاہد احمد دہلوی نے رسالہ ’’ساقی‘‘ 1930ء میں دہلی سے جاری کیا تھا اور 1947ء میں ہجرت کر کے پاکستان آئے تو یہاں دوبارہ اسی پرچے کا آغاز کیا۔ 1959ء میں پاکستان رائٹرز گلڈ بنی تو شاہد احمد دہلوی کی کوششیں بھی اس میں شامل تھیں۔ وہ ترقّی پسند تحریک میں شامل رہے اور خوب کام کیا۔ انھوں نے انگریزی کی متعدد کتب اردو زبان میں منتقل کیں۔ ان میں‌ کہانیاں اور بچّوں کی تعلیم و تربیت سے متعلق کتب اور مضامین بھی شامل ہیں جو ہر لحاظ سے اہم ہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد کراچی آئے تو ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہو گئے تھے، جہاں ایس احمد کے نام سے موسیقی کے پروگرام پیش کیے۔ شاہد احمد دہلوی نے موسیقی کے موضوع پر بھی لاتعداد مضامین رقم کیے جن کا مجموعہ’’ مضامینِ موسیقی‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوا۔ ان کے خاکوں کا پہلا مجموعہ ’’گنجینۂ گوہر‘‘ 1962ء میں شایع ہوا اور ’’بزمِ خوش نفساں‘‘ اور ’’طاقِ نسیاں‘‘ ان کی وفات کے بعد منظرِ عام پر آئے۔ ’’دِلّی جو ایک شہر تھا‘‘ اور ’’چند ادبی شخصیتیں‘‘ ان کی دو اہم کتابیں ہیں اور کئی تراجم ان کی زبان دانی اور قابلیت کا نمونہ ہیں۔

حکومت پاکستان نے شاہد احمد دہلوی کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں صدارتی اعزاز برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں