تازہ ترین

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

عدالت نے شہزاد اکبر اور شہباز گل کا نام نو فلائی لسٹ سے نکال دیا

اسلام آباد: عدالت نے شہزاد اکبر اور شہباز گل کا نام نو فلائی لسٹ سے نکال دیا، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کے علاوہ کوئی بلیک لسٹ میں نام نہیں ڈال سکتا۔

تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پی ٹی آئی شخصیات ‏شہزاد اکبر اور شہباز گل کی اسٹاپ لسٹ سے نام نکلوانے کی درخواست پر سماعت کی، مرزا شہزاد اکبر اور ڈاکٹر شہباز گل اپنے وکیل رئیس عبدالواحد ایڈووکیٹ اور دیگر وکلا کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئے۔

وکیل نے کہا کہ درخواست گزاروں کا نام بغیر کسی شکایت یا انکوائری یا کسی اور کارروائی کے ‘نو فلائی لسٹ/اسٹاپ لسٹ’ میں ڈالا گیا ہے، سیکریٹری داخلہ اور ڈی جی ایف آئی اے کا عمل بد دیانتی پر مبنی ہے، عدالت غیر قانونی اور غیر آئینی عمل کو کالعدم قرار دے۔

وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ سیکریٹری داخلہ اور ڈی جی ایف آئی اے نے درخواست گزاروں کے نام نو فلائی لسٹ میں صبح تقریباً 1.55 پر ڈالا ہے، اس وقت قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہو رہی تھی، جو بدنیتی کے ارادے اور بدسلوکی کو ظاہر کرتی ہے۔

وکیل نے کہا سیکریٹری داخلہ اور ڈی جی ایف آئی اے کی غیر قانونی کارروائی من مانی اور خلاف قانون ہے، سیکریٹری داخلہ اور ڈی جی ایف آئی اے نے پی ایم ایل ن کے اراکین کی آواز پر عمل کیا، یہ سیاسی انتقام ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔

وکیل نے کہا دونوں درخواست گزار سابق وزیر اعظم کے مشیر تھے، یہ طے شدہ قانون ہے کہ محض مقدمے کا زیر التوا ہونا بھی کسی شہری کی نقل و حرکت کی آزادی کو روکنے اور ملک سے آزادانہ طور پر باہر جانے اور آنے سے روکنے کی کوئی بنیاد نہیں ہے، نقل و حرکت کی آزادی درخواست گزار کا بنیادی حق ہے، جسے اسلامی جمہوریہ پاکستان 1973 کے آئین نے عطا کیا ہے۔

وکیل کے مطابق درخواست گزاروں کے نام اسٹاپ لسٹ میں ڈالنے پر جواب دہندگان کی طرف سے کوئی بھی قابل فہم بنیاد فراہم نہیں کی گئی ہے، نہ ہی انھیں مطلع کیا گیا ہے، یہ پاکستان کنٹرول آرڈیننس 1981 کے سیکشن 2 کے ذیلی سیکشن 2 کی سراسر خلاف ورزی ہے، درخواست گزاروں کے بنیادی حقوق کی بھی سنگین خلاف ورزی ہوئی ہے۔

وکیل نے عدالت سے کہا کہ سیکریٹری داخلہ اور ڈی جی ایف آئی اے کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات اختیارات کے ناجائز استعمال کے مترادف ہیں، عدالت ایف آئی اے کے غیر قانونی عمل کو کالعدم قرار دے۔

وکیل نے یہ بھی کہا کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومتی اہل کاروں کو مزید ہدایت کی گئی ہے کہ وہ بغیر این او سی کے پرواز نہیں کر سکتے، جنھوں نے حکومت کو ہٹانے کے لیے سازش کی اس لیے جواب دہندگان کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی۔

وکیل کا کہنا تھا کہ یہ عمل ایسے وقت میں کیا گیا جب ملک میں کوئی وزیر اعظم نہیں تھا، چیف جسٹس نے کہا بلیک لسٹ کے حوالے سے اس عدالت کی ججمنٹ موجود ہے، نوٹس جاری کر کے کل پوچھ لیتے ہیں۔

عدالت نے سیکریٹری داخلہ اور ڈی جی ایف آئی اے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا، اور عدالت نے سماعت کل تک کے لیے ملتوی کر دی، عدالت نے سیکرٹری داخلہ سے وضاحت طلب کی ہے اور کہا کہ سیکریٹری داخلہ کسی آفیسر کو عدالتی معاونت کے لیے مقرر کر دے۔

عدالت نے شہزاد اکبر اور شہباز گل کا نام نو فلائی لسٹ سے نکال دیا، اور وزارت داخلہ کا نوٹیفکیشن کل تک کے لیے معطل کر دیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کے علاوہ نام کوئی بلیک لسٹ میں ڈال نہیں سکتا۔

Comments

- Advertisement -