بدھ, فروری 12, 2025
اشتہار

مستند مؤرخ اور محقق مولائی شیدائی کا تذکرہ

اشتہار

حیرت انگیز

12 فروری 1978ء کو مولائی شیدائی اس دنیا کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر دارِ بقا کو چل دیے تھے۔ انھیں علم و ادب کی دنیا میں ایک مؤرخ اور جیّد صحافی کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ آج مولائی شیدائی کی برسی ہے۔

معروف سندھی ادیب مولائی شیدائی کا اصل نام میر رحیم داد خان تھا۔ وہ سکھر میں 1894 میں پیدا ہوئے اور وہیں انتقال کیا۔ ان کے والد کا نام میر شیر محمد خان تھا۔ مولائی شیدائی کی ابتدائی تعلیم و تربیت مولوی خدا بخش ابڑو اور مولوی محمد عظیم بھٹی کے زیر سایہ مکمل ہوئی۔ انھیں شروع ہی سے مطالعہ کا شوق ہوگیا تھا اور بعد میں وہ تحقیق کی جانب راغب ہوئے۔ انھوں نے سکھر کے اینگلو ورنیکیولر اسکول میں داخلہ لے کر چھے درجہ تک انگریزی کی تعلیم حاصل کی تھی، لیکن تعلیم ادھوری چھوڑ کر ملازمت شروع کر دی۔ مطالعہ کے شوق نے مولائی شیدائی کو تاریخ نویسی پر اکسایا اور انھوں نے بطور محقق، مصنّف اور مترجم سندھی اور اردو زبان کے قارئین کی توجہ حاصل کی۔ 1934 میں مولائی شیدائی کا پہلا مضمون ‘‘ممتاز محل’’ کے عنوان سے شایع ہوا تھا۔ یہی وہ مضمون تھا جسے پڑھ کر اس زمانے کی ایک علمی و ادبی شخصیت اور عالمِ دین مولانا دین محمد وفائی بہت متاثر ہوئے تھے۔ انھوں‌ نے مولائی شیدائی کی حوصلہ افزائی کی اور انھیں مزید لکھنے پر آمادہ کیا۔ یوں رحیم داد خان نے مولائی شیدائی کا قلمی نام اختیار کرکے باقاعدہ لکھنا شروع کیا۔

رحیم داد خان المعروف مولائی شیدائی نے متعدد ملازمتیں کیں اور محکمۂ ٹریفک سے ریلوے میں نوکر ہوگئے تھے۔ اس عرصہ میں مضامین تحریر کرنے کے ساتھ وہ علمی و تحقیقی کاموں‌ کی اشاعت میں مصروف بھی رہے۔ 1939ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد مولائی شیدائی نے باقاعدہ صحافت کا آغاز کیا۔

مولائی شیدائی زبان و بیان پر عبور رکھتے تھے۔ اپنے قلم سے انھوں نے بالخصوص تاریخ نویسی اور تراجم کا کام بخوبی انجام دیا۔ قابل اور باصلاحیت مولائی شیدائی نے سندھی کے متعدد معروف جرائد کی ادارت کی جن میں کاروان، مہران اور ہلالِ پاکستان شامل ہیں۔ بعض ادبی تذکروں میں لکھا ہے کہ انھوں نے بطور معاون مدیر روزنامہ آزاد میں بھی کام کیا تھا اور یہ 1941ء کی بات ہے۔ لیکن اسے جلد ہی ترک کردیا

جنّتُ السّندھ اور تاریخ تمدنِ سندھ مولائی شیدائی کی وہ دو مشہور تصانیف ہیں۔ ان کتابوں کو ان کا بڑا علمی سرمایہ کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ تاریخِ خاصخیلی، تاریخِ سکھر، تاریخ بھکر، تاریخِ قلات اور متعدد دیگر تصانیف ان کے قلم سے نکلی ہیں جنھیں مستند مانا جاتا ہے۔ 1960ء میں جنرل ایوب خان کی حکومت میں ان کے لئے ایک سو روپیہ ماہوار وظیفہ جاری ہوا جو ایک سال بعد ہی بند ہوگیا۔ 1962ء میں پاکستان رائٹرز گلڈ سندھ ریجن کی سفارش پر ان کے لیے وظیفہ جاری ہوا۔ 1941ء ہی میں ان کی ایک کاوش ’’مختصر تاریخ بلوچستان‘‘ شائع ہوئی تھی جس پر مولائی شیدائی کو حکومتِ بلوچستان کی جانب سے 400 روپے اور ریاست قلات کی جانب سے 250 روپے بطور انعام دیے گئے تھے۔ 1950ء میں مولائی شیدائی اپنی علمی استعداد اور قابلیت کی بدولت سندھ یونیورسٹی کے ریسرچ فیلو مقرر ہوئے۔ فیلو شپ کے دوران ہی ان کی دو شاہ کار کتابیں سندھ کی تاریخ‌ پر سامنے آئیں۔ سندھ کے علاوہ بلوچستان کی تاریخ پر ان کی کتابیں مستند ماخذ کا درجہ رکھتی ہیں۔ مولائی شیدائی نے علمی و ادبی حلقوں کے ساتھ تاریخ سے شغف رکھنے والے عام قارئین کو بھی متأثر کیا اور ان میں مقبول ہوئے۔

مولائی شیدائی اپنے آبائی شہر سکھر میں ٹیکری آدم شاہ میں آسودۂ خاک ہیں۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں