منگل, مئی 13, 2025
اشتہار

نان اپر کوالیفائڈ افسران اور انسپکٹر پروموٹ ہونے والے افسران کو ہٹانا چیلنج بن گیا

اشتہار

حیرت انگیز

کراچی میں نان اپر کوالیفائڈ افسران اور انسپکٹر پروموٹ ہونے والے افسران کو ہٹانا چیلنج بن گیا ہے، جس سے یہ چھبتا سوال ابھرا ہے کہ کیا آئی جی سندھ کو اپنا ہی حکم نامہ واپس لینا پڑے گا؟

شہر قائد میں ایک جانب پولیس جرائم پر قابو پانے کے لیے کوششیں کرتی نظر آتی ہے، تو دوسری جانب ایسے بااثرعناصر بھی موجود ہیں جو اپنے ’عزیزوں‘ کو نہ صرف تھانے دار کی سیٹ پر دیکھنا چاہتے ہیں بلکہ ان کے لیے ڈھال بن کر بھی کھڑے نظر آتے ہیں۔

آئی جی سندھ کی رٹ

بااثر عناصر کی وجہ سے شہر قائد میں آئی جی سندھ کے احکامات کو بھی نظر انداز کیا جانے لگا ہے، جس سے یقینی طور پر آئی جی سندھ کی رٹ چیلنج ہوتی ہے۔ گزشتہ ماہ انسپکٹر جنرل آف پولیس غلام نبی میمن کی جانب سے دو احکامات جاری کیے گئے تھے، جن میں ایک حکم نامہ کراچی رینج کے 66 پروموٹ ہونے والے افسران سے متعلق تھا۔

اس حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ ان تمام افسران کو 2 سال کے لیے شعبہ تفتیش میں لازمی تبادلہ کیا جائے، جب کہ دوسرا حکم نامہ نان اپر کوالیفائڈ ایس ایچ اوز کو ہٹانے کا تھا۔ حیرت انگیز طور پر دونوں احکامات ردی کی ٹوکری میں ڈالے گئے اور تاحال ان پر مکمل طریقے سے عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے، جس سے اہل افسران کی حق تلفی ہوتی نظر آتی ہے۔

ایس ایچ اوز کے تبادلے کیسے رُکے؟

ذرائع کا دعویٰ ہے کہ بااثر ایس ایچ اوز نے سیاسی اثر و رسوخ سے اپنے تبادلے رکوا دیے ہیں، اس وقت کراچی کے مختلف اضلاع میں تاحال نان اپر کوالیفائڈ اور پروموٹڈ افسران تعینات ہیں، پولیس ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ان میں ایک بااثر سیاسی شخص کے ڈرائیور کا بھائی بھی شامل ہے، جس کو ہٹانا مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی ہے۔ ایسی سیاسی شخصیات کسی طرح بھی اپنے ایس ایچ اوز ہٹوانے پر راضی نہیں ہوتے۔

رٹ چیلنج ہونے کے امن و امان پر اثرات

رواں سال اب تک شہر کے مختلف علاقوں میں اسٹریٹ کرائم اور دیگر جرائم پر مبنی 31 ہزار 641 سے زائد وارداتیں رپورٹ ہو چکی ہیں، 5 ماہ کے دوران ڈکیتی مزاحمت پر 72 شہریوں کو قتل کیا جا چکا ہے، جن میں 18 وہ شہری بھی شامل ہیں جن کو سی ٹی ڈی کے مطابق قتل تو فرقہ ورانہ دہشت گردی میں کیا گیا، لیکن طریقہ کار ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر قتل کا اختیار کیا گیا۔ اس کے علاوہ ڈاکوؤں نے فائرنگ کر کے سینکڑوں شہریوں کو زخمی بھی کیا۔

اس 5 ماہ میں شہریوں کو 18 ہزار کے قریب موٹر سائیکلوں سے محروم کیا گیا، تو 851 گاڑیاں بھی چوری یا چھینی گئیں۔ رواں سال شہریوں سے 9 ہزار کے قریب موبائل فون چھینے گئے جب کہ گھروں میں ڈکیتی کے 36، دکانوں پر 57 واقعات رپورٹ ہوئے۔ شہر کے مختلف علاقوں میں 282 سے زائد پولیس مقابلے ہوئے، جن میں 19 ملزمان ہلاک اور 437 سے زائد کو گرفتار کیا گیا۔

وزیر داخلہ کا حکم اور بعض ایس ایچ اوز کے ساتھ نرمی

کراچی میں وزیر داخلہ ضیا لنجار کے حکم پر ڈکیتی مزاحمت پر قتل پر متعلقہ تھانے کے ایس ایچ اوز کو فوری ہٹانے کا عمل شروع کیا گیا ہے، لیکن ذرائع کے مطابق کسی جگہ نرمی بھی برتی جا رہی ہے، مثال کے طور پر کورنگی میں نوجوان باسط کو ڈکیتی مزاحمت پر قتل کیا گیا، تاہم ایس ایچ او زمان ٹاؤن کو وزیر داخلہ نے نہیں ہٹوایا، حالاں کہ ڈکیتی مزاحمت پر قتل پر وزیر داخلہ صاحب گلشن اقبال کے 2 ایس ایچ اوز کو ہٹا چکے ہیں۔

ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ انتہائی اہم تھانوں میں جو تھانے دار ہیں، ان کو اپنے ہی علاقوں تک کا نہیں پتا، اس لیے کیا ہی بہتر ہوتا کہ وزیر داخلہ صاحب اس سزا اور جزا کے عمل کی شروعات تب کرتے جب تمام ایس ایچ اوز میرٹ پر لگے ہوتے اور کسی سیاسی دباؤ پر تھانے دار تعینات نہ کیے جاتے۔ یعنی کے ’مارو بھی اور رونے بھی نہ دو‘۔

حل کیا ہے؟

اگر کراچی میں امن کی بحالی کو یقینی بنانا ہے تو سیف سٹی پراجیکٹ سے زیادہ میرٹ پر تعیناتی ہونی چاہیے۔ یہی آئی جی سندھ کا وژن بھی ہے۔

ماڈل تھانے قائم ہونے چاہئیں جن میں نہ فنڈ کی کمی ہو، نہ ہی کسی بھی قسم کی سہولیات کی اور حکم کی تعمیل ایسے ہونی چاہیے جیسے آئی جی پنجاب کا حکم ملتے ہی ماتحت افسران کرتے ہیں، نہ کہ آخری وقت تک کوشش کی جاتی ہے کہ اس حکم نامے کو روکا جائے تاکہ ان عناصر کی خوش نودی حاصل ہو سکے جو آگے جا کر ان کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں۔

ایک زمانے میں صرف رینکر ہی اس دباؤ کے نیچے ہوتے تھے، لیکن اب پی ایس پی افسران بھی سخت سیاسی دباؤ کا شکار نظر آتے ہیں اور اگر ایسا ہی چلتا رہا تو کسی کو کوئی حق نہیں کہ وہ صرف پولیس کو اسٹریٹ کرائم یا دیگر جرائم کا ذمہ دار قرار دے، کیوں کہ اس حمام میں سب ہی ننگے نظر آتے ہیں۔ سیاسی و بااثر عناصر کے دباؤ کی وجہ سے ان افسران کو تو فائدہ پہنچ سکتا ہے، لیکن اس کا منفی اثر صرف اُس عوام پر پڑے گا جو پہلے ہی نہ جانے کتنے جوانوں کی لاشیں اٹھا چکے ہیں۔

آئی جی سندھ کا مؤقف

انسپکٹر جنرل آف پولیس غلام نبی میمن کا خبر کے حوالے سے پہلا مؤقف یہ سامنے آیا ہے کہ پولیس پر کوئی سیاسی دباؤ نہیں ہے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ نان اپر کوالیفائڈ ایس ایچ اوز بالکل بھی برداشت نہیں ہیں، ان کو ہٹانے کے احکامات دے دیے ہیں، جب کہ پروموٹ ہونے والے ایس ایچ اوز کو جب ہٹانے کے لیے حکم دیا تو ایڈیشنل آئی جی آفس سے ایک ریکوئسٹ آئی تھی کہ 10 ایس ایچ اوز ایسے ہیں جن کے ہٹائے جانے سے جرائم کے خلاف کاررائیوں پر اثر پڑ سکتا ہے۔ تاہم انھیں پھر سی پی او کی جانب سے جواب دیا گیا کہ اس سلسلے میں کوئی استثنیٰ نہیں ہے، سب کو ہٹایا جائے۔ چناں چہ انھیں بھی مرحلہ وار ہٹا دیا جائے گا۔

اہم ترین

نذیر شاہ
نذیر شاہ
نذیر شاہ کراچی میں اے آر وائی نیوز کے کرائم رپورٹر ہیں

مزید خبریں