جمعہ, ستمبر 20, 2024
اشتہار

پولیس اہلکاروں کا ڈیوٹی کے دوران ٹک ٹاک بنانے کا بڑھتا رجحان ، اصل ذمہ دار کون ؟

اشتہار

حیرت انگیز

کراچی : سندھ میں پولیس اہلکاروں کا ڈیوٹی کے دوران ٹک ٹاک بنانے کا بڑھتا رجحان جارہا ہے، جس پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ اہلکاروں کو اس راہ پر لگانے کا اصل زمہ دار کون ہے؟

تفصیلات کے مطابق سندھ پولیس میں ٹک ٹاک کا استعمال تشویشناک حد تک بڑھ گیا، بابو اور جانو بولنے والی نئی یوتھ کیا جرائم پیشہ عناصر سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھی ہے، اس راہ پر لگانے کا اصل زمہ دار کون ہے؟

دہشتگردی کے خاتمے اور امن و امان کی بحالی کے لیے ڈھائی ہزار کے قریب جانیں دینے والی سندھ پولیس پر مشکل وقت آن پڑا، ایک جانب سندھ پولیس کچے میں سفاک ڈاکووں سے نبرد آزما ہے تو دوسری جانب کراچی میں دہشتگردی اور دیگر واقعات میں پولیس کی شہادتیں ہورہی ہیں۔

- Advertisement -

اس کے باوجود سندھ پولیس کا ایک حصہ جو نوجوانوں اور جوانوں پر مشتمل ہے، وہ تمام باتوں سے بے خبر صرف اور صرف ٹک ٹاک بنانے پر وقت ضائع کرتے نظر آتے ہیں۔

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ منصوبہ بندی کے تحت گذشتہ چند سالوں میں بھرتی ہونے والے نوجوان لڑکے لڑکیوں کو اس راہ پر لگا کر ناکارہ کیا جارہا ہے۔

جنرل الیکشن سے قبل 19 اگست 2023 سے مارچ 2024 تک پنجاب پولیس میں گریڈ 21 کے افسر راجہ رفعت مختار کو آئی جی سندھ تعینات کیا گیا، جو 218 روز یعنی سات ماہ سے زائد عرصے تک سربراہ سندھ پولیس رہے، اس پورے عرصے کے دوران سندھ میں جرائم کی شرح تشویشناک حد تک بڑھی۔

راجہ رفعت نے اپنی سوچ کے مطابق کراچی پولیس کی ٹک ٹاکرفورس بھی بنائی ، جن سے سینٹرل پولیس آفس میں ملاقات کی ان کو سراہا شاباشیاں دی اور کہا کہ آپ لوگ سندھ پولیس کا امیج بہتر بناو، زیادہ تر ان کو بلایا گیا جن کے ویوز زیادہ تھے۔

پولیس کے نوجوان لڑکے لڑکیاں اس سے قبل بھی ٹک ٹاک بناتے تھے لیکن آئی جی کی جانب سے اجازت ملنے کے بعد ان کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ ہوا، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ سندھ پولیس کا مثبت چہرہ سامنے لاتے اپنی سندھ پولیس جس کا سلوگن ‘پراوڈ ٹو سرو’ یعنی خدمت پر فخر ہے اسے روشن کرتے، شہداء کی قربانیوں کا احساس دلاتے، سندھ پولیس کن وسائل کے ساتھ شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کرتی ہے ایسا چہرہ لوگوں کو دکھاتے، لوگوں کو بتاتے کہ روشنیوں کا شہر جو دہشتگردوں اور عسکری تنظمیوں نے تاریکی میں ڈبودیا تھا کس طرح شہداء نے اپنا خون بہا کر اپنی جانوں کو نظرانہ دے کر ان روشنیوں کو دوبارہ آباد کیا۔

لیکن اس کے برعکس ٹک ٹاک پر بے ہودگی جانو بابو کے ڈائیلاگ پھیلائے جانے لگے، سندھ پولیس کی باوقار یونیفارم پہن کر سرکاری وسائل کا استعمال کرتے ہوئے انڈین فلموں کے ڈائیلاگز بولے جانے لگے۔

لیڈی پولیس کانسٹیبلز کی جانب سے بھی ایسے کانٹینٹ بنائے گئے، جنہیں دیکھ کر صرف افسوس کیا جاسکتا ہے کوئی خود کو راٹھور تو کوئی ولن بنانے لگا۔

آئی جی سندھ کی آشیرباد کے باعث سندھ پولیس کی وہ یوتھ جنہیں آنے والے وقتوں کے لیے تیار کرنا تھا وہ صرف ٹک ٹاک کی حد تک پولیس فورس بن گئی۔

کانسٹیبلز بغیر شکن یونیفارم لپ اسٹک اور فلٹر لگا لگا کر ویڈیوز کی بھرمار کرتے رہے نتیجہ یہ نکلا کہ جرائم کی شرح میں اضافہ ہونے لگا کیونکہ ان ٹک ٹاکرز کو جہاں ڈیوٹی پر بھیجا گیا وہاں یہ اپنے فرائض انجام دینے کے بجائے سرکاری موبائل وسائل پستول ہتھیاروں کا استعمال اپنے ٹک ٹاک بنانے میں وقت ضائع کرتے رہے۔

ٹک ٹاکرز کو شاباش دینے والے راجہ رفعت مختار کو چاہیے تھا وہ ایک مرتبہ فالو اپ لیتے اور دیکھتے کہ کیا واقعی ان کی امیدوں کے مطابق کام چل رہا ہے یا نہیں لیکن انہوں نے اپنا وقت پورا کیا اور واپس چلے گئے اس کے بعد عمران یعقوب منہاس کو جب ایڈیشنل آئی جی کراچی کا عارضی چارج دیا گیا تو انہوں نے ایک پیغام جاری کیا۔

جس میں انہوں نے واضح پیغام دیا کہ ڈیوٹی کے دوران سرکاری وسائل کا استعمال کرتے ہوئے ٹک ٹاک ویڈیو نہ بنائی جائیں اس کے بعد ڈی آئی جی آرآر ایف فیصل عبداللہ چاچڑ نے بھی ایک حکمنامہ جاری کیا، اب ایس ایس پی اے وی ایل سی عارف اسلم راو کی جانب سے بھی اپنے یونٹ کے لیے خصوصی ہدایت نامہ جاری کیا گیا ہے لیکن اس کا اصل حل تب نکلے گا جب آئی جی سندھ اس پر واضح احکامات جاری کریں گے یا کم سے کم ایڈیشنل آئی جی کراچی نوٹس لیں اور نوٹیفکیشن جاری کریں گے۔

نمائندہ اے آر وائی نیوز کا کہنا ہے کہ ایک صحافی ضرور ہوں لیکن اس کے ساتھ کراچی کا عام شہری بھی ہوں اور میں کبھی یہ نہیں چاہوں گا کہ میرے محافظ جن کا رول ماڈل ہونا چاہیے وہ بے ہودگی پھیلاتے مغلظات بکتے نظر آئیں بلکہ میں چاہوں گا کہ وہ مثال بنیں شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کے لیے اقدامات کریں۔

نمائندے نے مزید کہا کہ سربراہ سندھ پولیس کو یہی مشورہ دونگا کہ اگر تمام تر پابندیوں کے باجود بھی معاملہ کنٹرول نہیں ہوتا تو ایسے باغی ٹک ٹاکرز کو چھٹیوں پر گھر بھیج دیا جائے تاکہ وہ آرام سے سوشل میڈیا پر اپنا کام کرسکیں اور شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کے لیے نئی بھرتیاں کی جائیں جن کو بتایا جائے کہ ان کو وہی کام کرنا ہے جس کے لیے وہ حلف لے کر پولیس فورس میں شامل ہورہے ہیں۔

Comments

اہم ترین

نذیر شاہ
نذیر شاہ
نذیر شاہ کراچی میں اے آر وائی نیوز کے کرائم رپورٹر ہیں

مزید خبریں