صوبہ پنجاب کا دارالحکومت لاہور فضائی آلودگی کے حوالے سے ملک کے آلودہ ترین شہروں میں سرفہرست ہے، اسموگ کے سبب شہری مختلف امراض کا شکار ہورہے ہیں۔
پنجاب میں اسموگ کی مجموعی صورتحال کسی حد تک تو بہتر ہوگئی لیکن لاہور اب بھی فضائی آلودگی کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے۔
ویسے تو ملک بھر میں چار موسم ہوتے ہیں لیکن اب اس میں پانچویں موسم کا بھی اضافہ ہوگیا جسے اسموگ کہا جارہا ہے۔ موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی لاہور ایک بار پھر اسموگ کی لپیٹ میں آگیا ہے۔
بدلتے موسم نے شہریوں کی بڑی تعداد کو مختلف امراض میں جکڑ لیا ہے جس کے نتیجے میں شہر بھر کے اسپتال مریضوں سے بھر گئے اور ساتھ ہی تجارتی اور کاروباری سرگرمیاں بھی شدید متاثر ہیں۔
کیا یہ بات درست ہے کہ لاہور میں رہنے سے اسموگ کے باعث زندگی کے سات سال کم ہوسکتے ہیں؟ اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے گفتگو کرتے ہوئے ماہر ماحولیات نے بتایا کہ اسموگ دراصل ایک فضائی آلودگی ہے جو ہوا میں موجود مضر صحت گیسوں کے اخراج اور ہوا میں موجود مٹی کے ذرات کے ملاپ سے بنتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس میں بہت سارے پارٹیکلز ہوتے ہیں پی ایم 2.5 کے یہ ذرات اس قدر چھوٹے اور بال سے زیادہ باریک ہوتے ہیں کہ وہ سانس کے ذریعے جسم میں داخل ہو کر صحت کے مسائل پیدا کرتے ہیں۔
ماہر موحولیات کا کہنا تھا کہ سردی کے موسم میں جب ہوا کی رفتار بہت کم ہوتی ہے تو اس سے دھواں اور دھند ایک جگہ ٹھہر جاتے ہیں جسے پارٹیکلز کہا جاتا ہے جو سانس کے ذریعے انسانی جسم میں باآسانی جگہ بنا لیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ لاہور میں اسکولوں کو بند کرنے اور رات 8 بجے مارکیٹیں بند کرنے کی دو وجوہات ہیں پہلی یہ کہ ٹریفک کی کمی کی وجہ سے اسموگ کی شدت میں کمی آئی ہے، پہلے ایئر انڈیکس 2500 تک تھا جو اب کم ہوکر 300پر آگیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اگر اسموگ کی یہی صورتحال رہی تو لاہور کے شہریوں کی زندگی سات سے آٹھ سال تک کم ہوسکتی ہے، اسموگ کے خاتمے کیلیے اگر 8 سے 10سال کا پلان ترتیب دیا جائے تو اسموگ سے چھٹکارا ممکن ہے لندن اور بیجنگ اس کی مثالیں ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق لاہور میں ائیر کوالٹی انڈیکس 457 کی خطرناک حد کو جا پہنچا جس کی وجہ سے لاہور اس وقت آلودہ شہروں کی فہرست میں پہلے نمبر ہے، محکمہ صحت کی جانب سے لاہور کے شہریوں کو ماحول دوست اقدامات پر سختی سے عملدرآمد کی ہدایات دی گئی ہیں۔
اسموگ سے بچاﺅ کیسے ممکن ہے؟
اسموگ پھیلنے پر متاثرہ حصوں پر جانے سے گریز کرنا چاہیے تاہم اگر وہ پورے شہر کو گھیرے ہوئے ہے تو گھر کے اندر رہنے کو ترجیح دیں اور کھڑکیاں دروازے بند رکھیں۔
باہر گھومنے کے لیے فیس ماسک کا استعمال لازمی کریں اور لینسز لگانے کے بجائے عینک کو ترجیح دیں اور ورزش سے بھی اجتناب کریں۔
اس کے علاوہ سادہ پانی اور چائے زیادہ پئیں۔ سگریٹ نوشی سے ہر ممکن بلکہ مکمل طور پر گریز کرنا ہی بہتر ہے۔ باہر سے گھر واپسی یا دفتر پہنچنے پر اپنے ہاتھ، چہرے اور جسم کے کھلے حصوں کو دھولیں۔