بدھ, اپریل 30, 2025
اشتہار

شمسی توانائی کا انقلاب : پاکستان کا متوسط طبقہ کیوں پیچھے رہ گیا؟

اشتہار

حیرت انگیز

کراچی : پاکستان میں بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمت اور گرمی کی شدت سے بچنے کیلیے لوگوں کی بڑی تعداد نے اپنے گھروں کی چھتوں پر شمسی توانائی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سولر پینلز لگانے شروع کردیے، یہ سلسلہ صرف شہروں ہی نہیں بلکہ دیہی علاقوں تک بھی پھیل چکا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال 2024 میں پاکستان نے دنیا کئی ممالک کی نسبت سب سے زیادہ سولر پینلز درآمد کیے، پاکستان میں شمسی توانائی یہ انقلاب متوسط طبقے کے لیے بھی امید کی کرن ثابت ہوا لیکن اس کی دسترس میں نہ آسکا۔

ماہ اپریل کی 40ڈگری سینٹی گریڈ گرمی میں جب کراچی میں نظام زندگی مفلوج ہو چکا تھا، شہر کی ایک صاحبِ حیثیت کاروباری شخصیت سعد سلیم بےفکر ہوکر اپنے گھر کا اے سی چلا رہے تھے۔

سولر پینلز

بجلی کے نرخ آسمان کو چھو رہے ہیں مگر سعد سلیم جیسے خوشحال افراد کو اس کی بالکل پرواہ نہیں، کیونکہ انہوں نے دو سال قبل اپنے بنگلے کی چھت پر ساڑھے 7 ہزار امریکی ڈالر کی لاگت سے سولر پینلز نصب کروا لیے تھے۔

پاکستان میں سولر سسٹم لگوانے کی یہ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف ) کے درمیان ایک ابتدائی بیل آؤٹ معاہدہ طے پا رہا تھا۔

اس معاہدے کے تحت پاکستان میں بجلی اور گیس کے نرخوں میں نمایاں اضافہ کیا گیا تاکہ شدید قرضوں میں ڈوبے توانائی کے شعبے کو سہارا دیا جا سکے۔

شمسی توانائی کے استعمال میں تیزی سے اضافہ

برطانوی انرجی تھنک ٹینک ’ایمبر‘ کے مطابق سال2021میں شمسی توانائی پاکستان کی صرف 4% بجلی کا ذریعہ تھی جو 2023 تک بڑھ کر 14% ہوگئی اور کوئلے کو پیچھے چھوڑ کر یہ توانائی کے حصول کا تیسرا بڑا ذریعہ بن گئی ہے۔

حیران کن طور پر یہ شرح چین ( جو دنیا کا سب سے بڑا سولر پینل فراہم کنندہ ملک ہے ) سے تقریباً دوگنی ہے، جو ایشیا میں بھی نمایاں طور پر سب سے آگے ہے۔

متوسط طبقہ پیچھے رہ گیا

پاکستان میں سولر توانائی کا انقلاب ایک تاریخی تبدیلی ضرور ہے، مگر اس کا ثمر صرف خوشحال اور زمین کی ملکیت رکھنے والے افراد کو ملا ہے۔

کرائے پر رہنے والے متوسط طبقے کے شہریوں کی تعداد کروڑوں میں ہے، مگر کمزور مالی حالات کے پیش نظر وہ اس سولر توانائی کے فوائد سے محروم رہتے ہیں۔ اگر حکومت فوری اور جامع اصلاحات نہیں کرتی تو توانائی کا یہ فرق مزید بڑھے گا، جس کے معاشی اور سماجی اثرات سنگین ہوسکتے ہیں۔

تاہم، یہ "شمسی انقلاب” پاکستان کے شہری متوسط طبقے کے لیے ایک خواب ہی رہا۔ بجلی کے بلوں میں اضافے کے بعد ان کے لیے مہنگا سولر سسٹم لگوانا مشکل ہوگیا ہے اور بہت سے لوگ ضرورت کے باوجود بجلی کے استعمال میں کمی کرنے پر مجبور ہیں۔

شمسی توانائی سے مستفید ہونے والے زیادہ تر افراد وہ ہیں جو اپنی جائیداد کے مالک ہیں یا دیہی علاقوں میں رہائش پذیر ہیں، جہاں چھوٹے سسٹمز سے بھی کام چل جاتا ہے۔

فلیٹوں اور تنگ گلیوں میں قائم اپارٹمنٹس میں رہنے والے شہریوں کو سولر پلیٹیں چھت پر نصب کرنے کی سہولت میسر نہیں لہٰذا وہ اس شمسی توانائی کے فوائد سے محروم رہتے ہیں۔

اس کے علاوہ پاکستان میں گھروں میں نصب زیادہ تر سولر سسٹم بجلی کے گرڈ سے منسلک نہیں ہیں، جس کا مطلب ہے کہ اضافی بجلی قومی نظام کو واپس نہیں دی جاتی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنہوں نے سولر سسٹم لگوایا وہ بجلی کے گرڈ سے الگ ہو رہے ہیں اور بجلی کی کمپنیاں اپنے سب سے منافع بخش صارفین سے محروم ہو رہی ہیں۔

اس صورتحال کے پیش نظر باقی صارفین پر بجلی کی لاگت کا بوجھ مزید بڑھتا جارہا ہے، سال 2023–24 میں 200 ارب روپے کے فکسڈ اخراجات ان صارفین پر ڈالے گئے جو سولر استعمال نہیں کرتے، جس سے فی یونٹ 6.3فیصد اضافی ادائیگی ہوئی۔

سولر پینل

متوسط طبقے کی رکاوٹیں

ایک سولر سسٹم لگانے والے صارف کو بجلی کے گرڈ سے منسلک ہونے میں 3 سے 9 ماہ کا عرصہ لگ جاتا ہے اور انورٹر جیسے آلات کی قیمت 1400 ڈالر سے 1800 ڈالر تک ہے جو پاکستان کے متوسط گھرانے کی نصف سالانہ آمدنی کے برابر ہے۔ اس کے علاوہ سولر پینلز کو نصب کرنے کی اجازت اور سرکاری منظوری میں تاخیر بھی ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔

اس حوالے سے ماہرین توانائی کا کہنا ہے کہ پاکستان کی مثال دنیا کے لیے ایک انتباہ ہو سکتا ہے کہ کس طرح حکومتوں کو مؤثر پالیسی سازی اور ریگولیشنز کو تکنیکی ترقی اور معاشی تبدیلی کے ساتھ ہم آہنگ رہنا چاہیے۔

ان کا کہنا ہے کہ جب حکومتیں عوامی مسائل پر فوری اور مناسب وقت پر ردعمل نہیں دیتیں تو لوگ خود اپنے تئیں اقدامات کرنے لگتے ہیں اور پاکستان کی صورتحال اس کی واضح مثال ہے۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں