انیسویں صدی کے ابتداء میں کراچی میں جانوروں کو پانی پلانے کے بہترین انتظامات تھے پارسی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والوں نے شہرکے قدیمی علاقوں میں گھوڑوں اور پرندوں کو پانی پلانے کے لئیے خوبصورت حوض اور گھاٹ تعمیر کی ہیں مگر زمانے کی ناقدری کے سبب یہ سب مقامات نا صرف اجڑ کر کھنڈر بن چکے بلکہ ان مقامات پر تجاوزات بھی قائم ہوگئیں۔
کراچی کے مختلف چوکوں چوراہوں اور سڑکوں پہ کبوتروں سمیت مختلف پرندوں کو پانی پلانے چارہ کھلانے کا انتظام عام ہے جہاں یہ معصوم پرندے پانی پیتے اور اٹکھیلیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں یہ سب دراصل کراچی کی تاریخ سے اسوقت سے جڑا ہے جب پاکستان نہیں بنا تھا۔
ان دنوں شہر کی کنجیاں پارسی برادری کے پاس تھیں اور انہوں نے جہاں شہر بھر میں مختلف تعلیمی ادارے اور خوبصورت طرز تعمیر سے مزین عمارتیں بنائیں وہیں جانوروں بالخصوص مال برداری کے کام آنے والے اونٹ گاڑی گدھا گاڑی اور بگھیوں کے آگے دوڑتے گھوڑوں کے لیے پانی پینے کے چھوٹے چھوٹے حوض بھی بنائے۔
سولجر بازار میں واقع گھوڑوں کے لئیے بنایا گیا اسٹینڈ 1925میں تعمیر ہوا مگر آج اسکی حالت دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ کیسے ایک تاریخی مقام کو بیدردی سے تباہ و برباد کردیا گیا۔
امتیاز خان کا خاندان 1925 سے اس اسٹینڈ پہ موجود ہے پہلے انکے دادا پھر والد اور اب وہ اسکی حفاظت کے ساتھ اپنا کام بھی کرتے ہیں امتیاز خان کے مطابق کلفٹن میں آباد ایک پارسی فیملی انہیں یہاں کی دیکھ بھال اور مرمت کے پیسے دیا کرتی تھی مگر دس سال پہلے وہ خاندان ملک چھوڑ گیا اور اب اس جگہ کا کوئی پرسان حال نہیں۔
سولجر بازار میں واقع اس اسٹینڈ پہ گھوڑے تو ایک طرف انسانوں کے کھڑے ہونے کی جگہ بھی نہیں بچی تجاوزات نے یہاں کا نقشہ ہی بدل دیا ارد گرد گاڑیوں کی پارکنگ ہے اور گھوڑے قدرے فاصلے پہ کھڑے ہوتے ہیں۔
سولجر بازار شہر کا واحد مقام نہیں تھا جہاں جانوروں کو پانی پلایا جاتا بلکہ پاکستان چوک پر بھی ایک ایسا ہی ایک خوبصورت حوض اجڑی حالت میں اپنے ماضی کا فسانہ سناتا ہے جسے سننے والا شاید کوئی نہیں۔
اس کے علاوہ گرومندر پہ واقع حوض کسی حد تک سلامت ضرور ہے مگر اب اس کی پرانی شکل برقرار نہیں رہ سکی اور صورتحال یہی رہی تو ایک دن اس حوض کے بھی صرف نشان باقی رہ جائیں گے۔