نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی گزشتہ اقساط پڑھیں
شیطان جادوگر پہلان نے اپنے ہی بد تمیز چیلے ڈریٹن کو جادو کے ذریعے سخت اذیت میں مبتلا کر کے چھوڑ دیا تھا، جس میں رات بھر تکلیف سے دوچار رہا۔ آخر کار طلوع آفتاب کے ساتھ ہی ڈریٹن کو اس اذیت سے رہائی مل گئی۔ وہ فرش پر دیر تک لیٹا بازو اور ٹانگیں رگڑتا رہا جن میں درد کا احساس ابھی بھی زندہ تھا۔ اس نے خوشی محسوس کی کہ رات ختم ہو گئی ہے لیکن اس کے جسم کا ہر حصہ درد سے تاحال کانپ رہا تھا۔ پھر وہ دھیرے دھیرے اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور قلعہ آذر کے محراب والے دروازے کی طرف چل دیا۔ اسی لمحے جادوگر پہلان نمودار ہوا اور زخموں پر نمک چھڑکنے لگا: ’’کیا تم رات بھر ٹھیک سے سوئے؟ سہانے خواب تو دیکھے ہوں گے؟ نہیں؟ اوہ تو کیا تم اب میری اطاعت کرنے کے لیے تیار ہو؟‘‘
ڈریٹن منھ ہی منھ میں بڑبڑایا لیکن جلدی سے سر ہلا کر کہا: ’’تم کیا چاہتے ہو؟‘‘
پہلان نے اسے بتایا کہ فیونا اور باقی سب لوگ آج پکنک منانے پہاڑی علاقے میں جا رہے ہیں جہاں وہ کیمپنگ کریں گے، اور یقیناً جادوئی گولہ اور قدیم کتاب بھی ساتھ لے کر جائیں گے، اس لیے تم ان کے پیچھے جاؤ اور اگر موقع ملے تو کتاب حاصل کرو، اور کل رات مجھے رپورٹ دو۔
اگرچہ ڈریٹن کو پہلان پر شدید غصہ آ رہا تھا، جس نے اسے رات بھر تکلیف برداشت کرنے پر مجبور کر دیا تھا، لیکن اس نے طابع داری دکھائی اور سر ہلاتے ہوئے جزیرے کے ساحل پر چلا گیا، جھیل پر پہنچ کر اسے یاد آیا کہ کشتی تو نہیں رہی، اس نے سوچا کہ شکایت کرنا فضول ہے، اس لیے وہ قلعے میں واپس جا کر سرنگ کے ذریعے باہر نکلا۔ سورج کی گرم شعاعیں اسے اپنے درد کرتے بدن پر اچھی محسوس ہوئیں، وہ چلتے چلتے درختوں کے جھنڈ میں چھپ کر انکل اینگس کے گھر کا جائزہ لینے لگا۔ اس نے ان سب کو کیمپنگ پر جانے کے لیے تیاریاں کرتے اور باتیں کرتے دیکھا۔ اس نے یہ بھی دیکھا کہ اینگس باہر آیا اور اس کے پاس جادوئی گیند اور قدیم کتابیں تھیں۔ وہ گاڑی میں نکلنے والے تھے اور ڈریٹن کو ان کا تعاقب کرنا تھا اور اس کے لیے کوئی ذریعہ تلاش کرنا تھا۔ اس لیے وہ شہر کی طرف بھاگا اور وہاں ایک پنساری کی دکان تک پہنچا تو اس نے دیکھا کہ ایک شہری نے گاڑی روکی، اور ڈریٹن کی خوش قسمتی کہ چابیاں بھی انگنیشن ہی میں چھوڑ دیں اور دکان کے اندر چلا گیا۔ ڈریٹن نے دیر نہ لگائی اور گاڑی میں گھس کر اسٹارٹ کی اور چل دیا۔ دوبارہ اینگس کے گھر پر پہنچ کر اس نے گاڑی کو درختوں کے جھنڈ میں لے جا کر چھپا دیا اور انتظار کرنے لگا کہ کب وہ روانہ ہوتے ہیں۔ اس کے پیچھے بلی میکفی، جس کی اس نے کار چرائی تھی، اپنی گاڑی غائب دیکھ کر بہت حیران ہوا۔ اس نے واپس پنساری کی دکان میں جا کر پولیس کو کار غائب ہونے کی اطلاع دی۔ ڈریٹن کو زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا، وہ جلد ہی ایک قافلے کی صورت پہاڑوں کی طرف روانہ ہو گئے اور ان کے پیچھے ڈریٹن بھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
قدیم انسانوں کو کیمپنگ کے لیے جدید دنیا کا خیمہ لگانے کے بارے میں کچھ پتا نہیں تھا، دوپہر کا وقت تھا جب وہ کیمپنگ کے مقام پر پہنچے، جیفرے نے وہاں ٹینٹ پول یعنی خیمے کے کھمبے نیچے گرا دیے اور بڑبڑایا: ’’پتا نہیں یہ کیسے لگاتے ہیں۔‘‘ اینگس اس کے قریب ہی کھڑے تھے، یہ دیکھ کر ہنس دیے اور کہا: ’’جیفرے پریشان نہ ہو، پہلے مجھے بھی یہ بہت مشکل لگتا تھا لیکن پھر میں نے سیکھ لیا۔‘‘ یہ کہہ کر انھوں نے ٹینٹ پول اٹھا کر لگانا شروع کر دیے۔
جیک نے انھیں بتایا کہ اس نے بوریل میں اس سے ملتے جلتے خیمے دیکھ رکھے ہیں، جو خانہ بدوش لوگ اپنی رہائش کے لیے بناتے تھے، اور وہ اس کے لیے بکری کے بال استعمال کرتے تھے۔ کچھ دیر میں انھوں نے خیمے نصب کر دیے، جن میں سے ایک فیونا اور مائری کا تھا، ایک جونی اور جیفرے نے شیئر کرنا تھا، اور ایک انکل اینگس، جیک، جیزے اور جولین نے استعمال کرنا تھا۔
فیونا اور اس کی ممی نے گاڑی سے ڈبے نکالے اور کھانے کا سامان باہر رکھا تاکہ کھانا پکانے کی تیاری کی جائے۔ جونی نے دوسروں کو بلایا اور گاڑی میں بیٹھ کر ندی پر مچھلیاں پکڑنے چلے گئے، مائری اور فیونا نے پہاڑی کی چوٹی پر سے انھیں غائب ہوتے دیکھا۔ وہ اس وقت روڈرک کیمپ گراؤنڈ پر تھے اور اس کا نظارہ بے حد خوب صورت تھا۔ مائری نے چاروں طرف نظریں ڈالتے ہوئے کہا: ’’میں یہ ساری چیزیں رکھنے کے بعد ہائیکنگ پر نکل جاؤں گی، میں فطرت کی خوب صورتی دیکھنا چاہتی ہوں، کیا تم میرے ساتھ چلو گی فیونا؟ میں اپنے باغ کے لیے یہاں سے کچھ جنگلی پھول بھی چنوں گی، میں نے کافی عرصے سے کوئی شہد بھی لے کر نہیں گئی ہوں۔‘‘
فیونا نے کہا کہ ابھی تو ہم بہت مصروف ہیں، کل ضرور شہد کے لیے مدد کروں گی۔ فیونا نے یاد دلایا کہ خزاں میں گھاس پھوس کم ہو جاتی ہے اور شہد کی مکھیاں اتنا شہد نہیں بنا پاتیں۔ اس نے کہا ’’ہم سیر کے لیے نہیں جا سکتے کیوں کہ ہم میں سے ایک کو یہاں رہنا ہے اور کتابوں اور جادوئی گیند کی حفاظت کرنی ہے۔ میرے خیال میں انکل اینگس بھول گئے ہیں کہ وہ انھیں اپنے ساتھ یہاں لے کر آئے ہیں ورنہ وہ ہمیں ضرور کہتے کہ ان کا خیال رکھیں۔‘‘ لیکن مائری نے پھر اصرار کیا کہ وہ بس کچھ دیر ہی کے لیے جائیں گی، اور واپس آ جائیں گی۔ فیونا نے بھی ہتھار ڈال دیے۔ انھوں نے ڈبوں سے سامان نکال کر وہاں رکھا اور پھر مائری چلی گئیں۔ جب کہ فیونا نے بیگ سے ایک کتاب نکال کر مطالعہ شروع کر دیا۔
(جاری ہے۔۔۔)

Comments