اشتہار

پنجاب اور کے پی انتخابات پر ازخود نوٹس: تمام بڑی سیاسی جماعتوں اور صدر سمیت دیگر کو نوٹس جاری

اشتہار

حیرت انگیز

اسلام آباد : سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات پر از خود نوٹس کیس میں تمام بڑی سیاسی جماعتوں، صدر مملکت، گورنرز، الیکشن کمیشن اور اٹارنی جنرل سمیت فریقین کو نوٹسز جاری کردیے۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پنجاب اور خیبرپختون میں انتخابات پر از خود نوٹس کیس کی سماعت نو رکنی لارجر بینچ نے کی۔

بنچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر علی نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس یحییٰ خان آفریدی، جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس جمال خان مندوخیل شامل تھے۔

- Advertisement -

بینچ میں شامل جسٹس جمال مندوخیل اورجسٹس اطہر من اللہ نےازخودنوٹس پر اعتراض اٹھایا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہم نےیہ بھی دیکھناہےکہ کیا اسمبلیوں کی تحلیل قانونی تھی؟ اگر قانونی نہیں تھیں توالیکشن کے بجائے کیوں نہ اسمبلیاں بحال کی جائیں۔کیاچیف منسٹرکوپارٹی سربراہ کی ہدایت پرعمل کرکے اسمبلیاں توڑنی چاہئیں، چیف منسٹرکےاس اقدام کی قانونی حیثیت کیاہوگی؟

جسٹس جمال مندوخیل نےاعتراض کیا کہ ازخودنوٹس سی سی پی اوکےٹرانسفرکیس کےدوران لیاگیا، جسٹس مظاہر علی نقوی اس بینچ میں تھے، جس میں چیف الیکشن کمشنر کو بلایاگیا سی سی پی او کے کیس کاعام انتخابات سےکوئی تعلق نہیں ہے اس لئےاس کیس کےحوالےسےیہ نوٹس نہیں لیاجاسکتا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے دونوں معززججز کےاعتراضات سوموٹونوٹس کاحصہ بنارہےہیں جبکہ جسٹس جمال مندوخیل اورجسٹس اطہرمن اللہ کےسوالات شامل کرلئے ہیں ۔

عدالت نے کہا آئین کےمطابق الیکشن اسمبلیاں تحلیل کےبعد نوےدن میں کئےجانےہیں، ازخودنوٹس میں کچھ سوالات الیکشن کمیشن ایکٹ ستائیس ، اٹھائیس سےمتعلق ہیں۔ عدالت نے تین معاملات کو سنناہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ صدر پاکستان نے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیا، دیکھنا ہے اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد الیکشن تاریخ کا اختیار کس کو ہے؟ہمارے سامنے ہائیکورٹ کا دس فروری کا آرڈرتھا ہم آئین پرعملدرآمد چاہتے ہیں۔

جسٹس عمر بندیال نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ آئین کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرے گی، ‏انتہائی سنگین حالات ہوں تو انتخابات کا مزید وقت بڑھ سکتا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے ریمارکس کہا آئین انتخابات کا وقت بتاتا ہے جو ختم ہورہا ہے، ہائیکورٹ میں معاملہ زیر التوا تھا مگر کوئی فیصلہ نہیں ہو پارہا تھا۔

بیرسٹر علی ظفر روسٹرم پر آئے اور کہا کہ ہم صدر پاکستان سے متعلق چیزیں ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ دو درخواستیں ہیں وہ اب آؤٹ ڈیٹ ہوچکی ہیں اس پر وضاحت کی ضرورت ہے۔

جسٹس عطا بندیال کا کہنا تھا کہ 20 فروری کو صدر کے انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد صورتحال بدل گئی، کچھ سوال دونو ں اسمبلی کے اسپیکرز نے اپنی درخواستوں میں شامل کیے ہیں، سپریم کورٹ نے صرف آئینی نکتہ دیکھنا ہے اور اس پر عمل درآمد کرانا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کیس کے لیے وقت دینے کی استدعا کی اور کہا کہ اتنے لوگوں کو نوٹس ہوگا تو کل کے لیے تیاری مشکل ہوپائے گی۔

چیف جسٹس نے کہا، آج ہم نوٹس کے علاوہ کچھ نہیں کریں گے ، انتخابات کا مسئلہ وضاحت طلب ہے، ہم سب کو سننے کا ارادہ رکھتے ہیں، لیکن وقت کم ہے، سماعت طویل نہیں ہوگی،تفصیلی سماعت پیر سے ہوگی ۔

‏اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کے سامنے آئینی سوالات ہیں، ایڈوکیٹ جنرل کو نوٹس کیا جائے، سیاسی جماعتوں کو بھی نوٹس کیا جائے، پاکستان بار کونسل کو بھی نوٹس کیا جائے۔

سپریم کورٹ نے تمام بڑی سیاسی جماعتوں، صدر مملکت، گورنروں، الیکشن کمیشن اور اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردیے سماعت کل صبح گیارہ بجے تک ملتوی کردی۔

Comments

اہم ترین

مزید خبریں