اسلام آباد : ڈائریکٹر جنرل نیب سندھ اور پراسیکیوٹر جنرل پاکستان نے سپریم کورٹ میں انکوائریوں سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کی جس پر عدالت اظہار برہمی کیا ہے۔ ۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں نیب کے اختیارات سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی جس دوران پراسیکیوٹر جنرل وقاص ڈار اور ڈی جی نیب سندھ سراج النعیم نے رپورٹ پیش کی۔ سپریم کورٹ نے چھوٹے کم مالیت کے کرپشن کیس اینٹی کرپشن کو بھجوانے کا حکم دیتے ہوئے اینٹی کرپشن اور ڈائریکٹر ایف آئی اے کو فوری طلب کر لیا ہے۔
جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دئیے کہ نیب میگا کرپشن کے خلاف بنایا گیا ، چھوٹی کارروائیوں کیلئے نہیں۔ ڈی جی نیب نے عدالت کو بتایا کہ ہمیں میگا کیسز کی انکوائری کا اختیار ہے،جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ جو فہرست آپ نے دی اس میں کتنے میگا کیسز ہیں۔
،ڈی جی نیب نے کہا کہ فہرست میں کوئی میگا کیس نہیں، جس پر جسٹس امیر مسلم ہانی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ڈیڑھ لاکھ، 2 لاکھ روپے کی انکوائریاں کس قانون کے تحت ہو رہی ہیں، کیا نیب کا یہی کام رہ گیا ہے،آپ کو پتہ ہے آپ نے 4 لاکھ روپے کی اپیل سپریم کورٹ میں دائر کی ہوئی ہے، آپ نے کس کی اجازت سے اپیل دائر کی۔
ڈی جی نیب نے کہا کہ اپیل نیب کے چیئرمین کی اجازت سے دائر کی ہے، جسٹس امیر مسلم ہانی نے کہا کہ آپ نیب آرڈیننس دیکھیں اور ہمیں اپنا دائرہ کار بتائیں اور نیب کے قواعد و ضوابط سے بھی آگاہ کیا جائے۔
عدالت نے ڈی جی نیب سے پوچھا کہ آپ کب سے نیب میں ہیں؟ جس پر ڈی جی نیب نے کہا کہ میں 2001 سے نیب میِں ہوں۔ عدالت نے پوچھا کہ آپ کس سے ادارے آئے،۔
ڈی جی نیب نے کہا کہ پاک آرمی سے ڈیپوٹیشن پر نیب میں آیا، عدالت نے پوچھا کہ آپ فوج سے کب ریٹائر ہوئے، ڈی جی نیب نے کہا کہ میں ریٹائر نہیں ہوا، ٹرانسفر کے بعد نیب میں ضم کر دیا گیا۔ سماعت کے دوران جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ نیب میں تو ضم ہونے کا قانون ہی نہیں،
میرٹ پر تقرری کے لئے اشتہار دیا جانا چاہئے تھا، وفاق نے جو اتنے بڑی بڑی رقوم معاف کیں، ان کا کیا بنا،جتنے ریفرنس ہیں ان کی تفصیلات منگوائیں، جتنی رضا کارانہ ریکوری ہوئیں اس کی بھی تفصیلات بتائیں،آپ کلرکوں اور دیگر افسران سے 3،3 کروڑ روپے وصول کر کے واپس بھیج دیتے ہیں،وہ واپس جا کر پھر لوٹ مار میں مصروف ہو جاتے ہیں ۔
یہ کرپشن کو ضرب دینے کے مترادف ہے، سرکاری افسران کے خلاف جو کیسز آپ کے دائرہ کار میں نہیں آتے انہیں متعلقہ اداروں میں بھیجیں،سماعت کے دوران عدالت کاکہنا تھا کہ ہماری نظر میں رضاکارانہ واپسی کی دفعہ آئین سے متصادم ہے ،رضاکارانہ واپسی سے کرپشن بڑھی، کم نہیں ہوئینیب کی تشکیل کا مقصد بدعنوانی ختم کرنا تھا۔
رقوم کی وصولی نہیں تھا، رضاکارانہ واپسی سے فائدہ اٹھانے والوں کے خلاف کوئی محکمہ جاتی کارروائیاں نہیں کی جاتی اس شق سے فائدہ اٹھانے والے سرکاری ملازمت جاری رکھتے ہیں اور الیکشن بھی لڑ سکتے ہیں، سول سرونٹس قوانین کے تحت کرپشن تسلیم کرنیوالا عہدے پر برقرار نہیں رہ سکتا۔
عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہا کہ صوبائی و وفاقی حکومتوں نے نیب کی تنبیہہ کے باوجود کوئی توجہ نہ دی، رضاکارانہ واپسی اور پلی بارگین کے معاملے کو آئین کی کسوٹی پر پرکھنا ضروری ہوگیا ہے۔ عدالت نے چیئرمین اینٹی کرپشن اور ڈائریکٹر ایف آئی اے کو بھی فوری طور پر طلب کر لیا ہے۔