تازہ ترین

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کیس، عدالت عظمیٰ کا اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری

سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف درخواستوں کی سماعت ہوئی عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل آف پاکستان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔

اے آر وائی نیوز کے مطابق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف عدالت عظمیٰ میں درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردیے۔ اس کے علاوہ سیاسی جماعتوں، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سمیت پاکستان بار کونسل کو بھی معاونت کا نوٹس جاری کر دیا جس کے بعد سماعت ملتوی کر دی گئی۔

سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف درخواستوں کی عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں 8 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔ اس موقع پر درخواست گزاروں کے وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے جب کہ اٹارنی جنرل آف پاکستان بھی عدالت میں موجود تھے۔

اے آر وائی نیوز کے مطابق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف عدالت عظمیٰ میں درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردیے۔ اس کے علاوہ سیاسی جماعتوں، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سمیت پاکستان بار کونسل کو بھی معاونت کا نوٹس جاری کر دیا جس کے بعد سماعت ملتوی کر دی گئی۔

سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف درخواستوں کی عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں 8 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔ اس موقع پر درخواست گزاروں کے وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے جب کہ اٹارنی جنرل آف پاکستان بھی عدالت میں موجود تھے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم پارلیمنٹ کی عزت کرتے ہیں، اس معاملے میں اہم آئینی سوالات ہیں۔ عدالتی معاون بھی تعینات کر سکتے ہیں۔ ہم آج کی سماعت کا آرڈر بعد میں جاری کریں گے۔

چیف جسٹس نے درخواست پر سماعت کو ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ ہفتے 4 ورکنگ ڈیز ہیں اس لیے آئندہ سماعت کب ہوگی یہ ججز کے ساتھ مشاورت کروں گا۔

اس سے قبل سماعت شروع ہوئی تو درخواست گزار راجا عامر کے وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں یہ مقدمہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ قاسم سوری کیس کے بعد سیاسی تفریق میں بہت اضافہ ہوا۔ قومی اسمبلی کی بحالی کے بعد سےسیاسی بحران میں اضافہ ہوا۔ وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن انتخابات کرانے پر آمادہ نہیں جس پر عدالت کو انتخابات نہ کرانے پر ازخود نوٹس لینا پڑا اور اس نے الیکشن کمیشن کو انتخابات کرانے کا حکم دیا۔ تین اپریل کو عدالت نے دوبارہ انتخابات کرانے کا حکم دیا۔

ایڈووکیٹ امتیاز صدیقی کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئین پر عمل کرنے کے عدالتی حکم کے بعد مسائل زیادہ پیدا کیے گئے۔ عدالت اور ججز پر ذاتی تنقید کی گئی جس کے ذمے دار حکومتی وزرا اور اراکین پارلیمنٹ ہیں۔ مجوزہ قانون سازی سے عدلیہ کی آزادی میں مداخلت کی گئی۔ دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد بل صدر کو بھجوایا گیا اور انہوں نے اس پر اعتراضات عائد کرکے بل اسمبلی کو واپس بھیجا۔

ان کا کہنا تھا کہ سیاسی اختلاف پر صدر کے اعتراضات کا جائزہ نہیں لیا گیا بلکہ مشترکہ اجلاس سے منظوری لے لی گئی اس منظوری کے 10 دن بعد یہ بل قانون بن جائے گا۔ بل کے تحت ازخود نوٹس، بینچز کی تشکیل کا فیصلہ 3 رکنی کمیٹی کرے گی۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ یہ بل قانون بننے کے لائق ہے؟

امتیاز صدیقی ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے مزید کہا کہ کابینہ کی جانب سے بل کی توثیق کرنا غیر قانونی ہے۔ بل کابینہ میں پیش کرنا اور منظوری دونوں انتظامی امور ہیں۔ بل کو اسمبلی میں پیش کرنا اور منظوری لینا بھی غیر آئینی ہے۔ بل زیر التوا نہیں بلکہ مجوزہ ایکٹ ہے۔ صدر منظوری دیں یا نہ دیں ایکٹ قانون کا حصہ بن جائے گا تاہم سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے منظور کردہ بل کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔

انہوں نے دلائل دیتے ہوئے مزید کہا کہ چیف جسٹس کے بغیر سپریم کورٹ کا کوئی وجود نہیں۔ چیف جسٹس کی تعیناتی سے ہی سپریم کورٹ مکمل ہو کر کام شروع کرتی ہے۔ چیف جسٹس کے بغیر دیگر ججز موجود بھی ہوں تو عدالت مکمل نہیں ہوتی۔

امتیاز صدیقی نے کہا کہ چیف جسٹس اور ججز کے اختیارات کم نہیں کیے جا سکتے اور نہ ہی چیف جسٹس کا آفس کوئی اور جج استعمال کرسکتا ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ چیف جسٹس کا دفتر 2 سینئر ججز کے ساتھ کیسے شیئر کیا جا سکتا ہے؟ عدلیہ کی آزادی پر سپریم کورٹ کئی فیصلے دے چکی ہے۔ ریاست کے ہر ادارے کے اقدامات کا سپریم کورٹ جائزہ لے سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ قاسم سوری کیس میں قرار دے چکی کہ پارلیمنٹ کے اقدامات کا بھی جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ ماضی میں عدالت قرار دے چکی ہے کہ بل کو پاس ہونے سے نہیں روکا جا سکتا لیکن بل پاس ہوجائے تو عدالت اس کا جائزہ لے سکتی ہے۔ عدالتی فیصلے کے مطابق صدر کی منظوری سے پہلے بھی مجوزہ ایکٹ کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔

درخواست گزار کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ عدالت آئین کی محافظ اور انصاف کرنے کیلیے با اختیار ہے جب کہ تمام ادارے سپریم کورٹ کے احکامات ماننے کے پابند ہیں۔ آرٹیکل 191 کے تحت سپریم کورٹ اپنے رولز خود بناتی ہے۔ سپریم کورٹ کے رولز موجود ہیں جن میں پارلیمنٹ ترمیم نہیں کرسکتی۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے مطابق عدلیہ کی آزادی بنیادی حق ہے جس کو آئین کا مکمل تحفظ ہے اور آپ کے مطابق پارلیمنٹ، ایگزیکٹو کی طرح عدلیہ کو بھی آئینی تحفظ حاصل ہے۔

امتیاز صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ صدر مملکت کا عہدہ صرف رسمی نوعیت کا نہیں بلکہ یہ ریاست پاکستان کی وحدانیت کی علامت ہے۔ صدر نے بل کا دوبارہ جائزہ لینے کی ہدایت کی۔ اسمبلی سےمنظوری کے بعد بل میں ترمیم نہیں ہوسکتی۔ بل کی منظوری کے بعد قانون سازی کا عمل مکمل تصور ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ اپنا کام مکمل کرچکی ہے اس لیے عدالت کا موجودہ کیس میں حکم زیر التوا قانون سازی میں مداخلت نہیں ہوگا۔

امتیاز صدیقی نے اس موقع پر حسبہ بل کے کیس کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں بھی سپریم کورٹ نے منظور شدہ بل کا جائزہ لیا اور حسبہ بل کیس ناقابل سماعت ہونے کے اعتراضات سپریم کورٹ نے مسترد کرکے اس کو غیر آئینی قرار دیا۔ حسبہ بل صدارتی ریفرنس کی صورت میں سپریم کورٹ آیا تھا۔

امتیاز صدیقی نے کہا کہ موجودہ کیس آرٹیکل 184 تھری کا ہے جس میں عدالت زیادہ با اختیار ہے۔ آرٹیکل 184 تھری میں سپریم کورٹ شادی ہال تک گرانے کا حکم دے چکی۔ عدالت کے تمام احکامات بنیادی حقوق کے حوالے سے تھے۔ انہوں نے استفسار کیا  کہ کیا کیا عدلیہ کی آزادی عوام کا بنیادی حق نہیں ہے؟

انہوں نے کہا کہ مجوزہ قانون کے ذریعے چیف جسٹس کے اختیارات کم کرنے کی کوشش کی گئی۔ آئین 184 تھری میں اپیل نہیں نظر ثانی کا حق دیتا ہے۔ سپریم کورٹ کا ایک جج دوسرے جج کے خلاف اپیل نہیں سن سکتا۔ کئی مرتبہ ہم وکلا بھی 184 تھری کا شکار ہوئے ہیں۔ عام مقدمات میں نظر ثانی کیس 5 منٹ بھی نہیں چلتا جب کہ کچھ مقدمات میں نظر ثانی مقدمات کئی ماہ چلتے ہیں۔ کیا پارلیمنٹ عدلیہ کے اندرونی معاملے کو ریگولیٹ کرسکتی ہے؟

Comments

- Advertisement -