برصغیر کی تاریخ میں خلافتِ عثمانیہ کے زوال اور ہندوستان پر انگریزوں کے قبضے کے زمانے میں جن علماء، سیاسی راہ نماؤں اور سماجی شخصیات نے مسلمانوں کو اپنے دینی اور ملّی تشخص کو زندہ رکھنے اور اتحاد پر زور دیا اور اس کے لیے عملی جدوجہد کی ان میں ایک نام سید جمال الدّین افغانی کا ہے۔
انیسویں صدی عیسوی کے صفِ اوّل کے بااثر مسلم زعما میں سے ایک جمال الدّین افغانی کے نظریات اور ان کی مساعی کو شاعرِ مشرق علاّمہ اقبال نے بھی سراہا اور ان کے معترف رہے۔ علّامہ اقبال نے اپنی تصانیف اور بیانات میں بھی جمال الدّین افغانی کا ذکر کیا اور ان کی متنوع اور انقلابی خدمات کو سراہا۔
جس زمانہ میں خلافتِ عثمانیہ کا زوال شروع ہوا اور برِصغیر کے مسلمان انگریزوں کی غلامی کے ساتھ ان کے اثرات قبول کررہے تھے، اس وقت دنیا کے کئی مسلم ممالک میں بے چینی اور عدم تحفظ کا احساس پیدا ہورہا تھا۔ یہ خلافت کے خاتمے سے پریشان ممالک تھے اور اس وقت ہندوستان کے علاوہ بھی مسلم ریاستوں کو طاقتور ملکوں کی نوآبادیات میں کئی مسائل کا سامنا تھا۔ ان حالات میں جمال الدین افغانی نے مسلم ممالک کو اِس بات پر قائل کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا کہ اسلامی ممالک متحد ہوں ایک مرکز پر اکٹھے ہوکر اپنے دین اور روایات کے غلبے کی کوشش کریں۔ مؤرخین کے مطابق یوں تو شاہ ولی اللہ دہلوی نے سب سے پہلے بیداریٔ روح کا احساس دلایا مگر اس کی اہمیت کو جمال الدّین افغانی نے اپنی سیاسی بصیرت سے اجاگر کیا۔
جمال الدین افغانی طباطبائی سیّد تھے۔ جلال آباد کے قریب ایک گاؤں اسد آباد میں 1839ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے مولد میں حاصل کی۔ تکمیلِ علوم و فنون کی غرض سے آپ نے کابل اور بعد میں ایران کے شہروں مشہد، اصفہان اور ہمدان کا رخ کیا۔ اپنی فطری ذہانت اور ذکاوت کے بل بوتے پر اٹھارہ برس کی عمر میں تاریخ، حکمت و فلسفہ، ریاضی اور نجوم وغیرہ مکمل کیے۔ اسی سال ہندوستان چلے آئے اور ایک سال تک یہاں قیام کے دوران اردو اور انگریزی بھی سیکھی۔ بعد میں فرماں روائے افغانستان امیر دوست محمد خاں کی ملازمت اختیار کر لی اور اس کے بڑے بیٹے کے اتالیق مقرر ہوئے۔ بعد میں سیاسی اور ملکی حالات بدلے تو ملازمت ترک کر دی اور ترکی، استنبول چلے گئے۔ اسی طرح لندن، امریکا اور پیرس کا سفر کیا۔ پیرس میں فرانسیسی زبان سیکھی۔ انھیں سیاسی زعما اور والیانِ ریاست کے قریب رہنے اور ان سے بدلتے ہوئے حالات میں صلاح مشورے کا شرف تو حاصل رہا، مگر حاسدین اور بدخواہوں نے انھیں کہیں ٹکنے نہ دیا۔ شاہِ ایران سے اختلاف کے بعد وہ 1893ء میں سلطان عبدالحمید عثمانی کی دعوت پر استنبول آگئے۔ وہیں سید جمال الدّین افغانی نے 9 مارچ 1897ء کو وفات پائی اور ان کی تدفین استنبول میں کی گئی۔ کئی برس بعد ان کا جسدِ خاکی کابل منتقل کیا گیا۔
وہ ترقی پسند اور ہمہ گیر اجتہادی نقطۂ نظر کے حامل تھے۔ ایک صحافی، دانش ور اور خطیب کی حیثیت سے انھوں نے افغانستان، ایران، ترکی اور مصر کے حکام و سلاطین کے ساتھ اپنے روابط کو اصلاحی مشن کے لیے استعمال کیا۔ سیّد افغانی نے اپنے وطن (افغانستان) میں اصلاحات کے لیے جو تجاویز اور مشورے دیے ان میں فوج کی تشکیلِ نو، سفیروں اور نمائندوں کے تقرر، ڈاک کے نظام کی بہتری شامل ہیں۔ کہتے ہیں کہ روس میں ان کی کوشش کے نتیجے میں زار نے قرآنِ مجید کے روسی ترجمے اور بعض اسلامی کتب کی اشاعت کی اجازت دی تھی۔ افغانی کے مخالفین بھی ان کی خداداد صلاحیتوں اور استعداد و قابلیت کے معترف رہے۔
سید افغانی اردو، انگریزی، پشتو، ترکی، جرمن، عربی، فارسی اور فرانسیسی زبانوں میں دستگاہ رکھتے تھے اور تحریر و تقریر کے ذریعے اصلاح اور انقلاب کے لیے کوششیں کرتے رہے۔